لوک سبھا انتخاب 2024: جرأت مندانہ امید!

اس وقت یہ بتانا مشکل امر ہے کہ مودی سے بیزاری کتنی طاقتور ہے، لیکن یہ بیزاری موجود ضرور ہے، حتیٰ کہ شمالی ہندوستان کے ہندی-ہندو بیلٹ میں بھی یہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p> تصویر @INCIndia</p></div>

تصویر @INCIndia

user

قومی آواز تجزیہ

ایسے وقت میں جب ہندوستانی خواب کو از سر نو حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے سابق امریکی صدر براک اوباما کی 2006 میں شائع کتاب کا عنوان اور ذیلی عنوان بہت مناسب معلوم پڑتا ہے۔ جب (26 اپریل) یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو 45 دنوں اور 7 مراحل پر مشتمل لوک سبھا انتخاب کے دوسرے مرحلہ کی انتخابی تشہیر ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت جو ہوا محسوس کی جا رہی ہے، اس میں سیاست کی سمت میں ممکنہ تبدیلی کا اشارہ دینے والے کافی تنکے موجود ہیں۔ بمشکل چند ہفتے قبل، یا پھر یہ کہیں کہ 19 اپریل کو پہلے مرحلہ کی ووٹنگ سے قبل تک بیشتر سیاسی پنڈت انتہائی یکطرفہ مقابلے کی توقع کر رہے تھے۔ اس کے لیے وہ معقول وجہ بھی بتا رہے تھے، لیکن اشاروں سے یہ بھی پتہ چل رہا تھا کہ اس کے پیچھے بی جے پی کی مشہور الیکشن مشینری کا خوف بھی پنہاں ہے۔ حالانکہ کچھ اندازے ایسے بھی تھے جن میں اپوزیشن کی پیچھے دھکیلنے کی صلاحیت کا تذکرہ تھا۔

براک اوباما نے 2004 کے ’ڈیموکریٹک نیشنل کونشن‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بالآخر یہ انتخاب اس تعلق سے ہے کہ (یہ اوباما کے صدارتی انتخاب کی بات نہیں ہے، وہ تو پانچ سال بعد صدارتی انتخاب میں کھڑے ہوئے، یہ بات ہے 2004 کی جب جارج بش جونیئر اور جان کیری کے درمیان مقابلہ تھا) کیا ہم نفرت کی سیاست میں حصہ لیتے ہیں، یا امید کی سیاست میں؟‘‘ 2006 میں اوباما نے ’دی آؤڈیسٹی آف ہوپ‘ (امید کی بے باکی) عنوان سے کتاب کا اجراء کیا جس میں ان موضوعات پر تفصیلی بحث کی گئی تھی جسے انھوں نے نیشنل کنونشن کی تقریر کا حصہ بنایا تھا۔ کتاب کا یہ عنوان سابق امریکی صدر نے اپنے سابق پادری یرمیاہ رائٹ کے ایک خطبہ سے اخذ کیا تھا۔ دراصل رائٹ نے 1980 کی دہائی کے آخر میں ایک لیکچر میں شرکت کی تھی جو کہ جی ایف واٹس کی ایک پینٹنگ سے متعلق تھی اور اس کا عنوان تھا ’ہوپ‘ (امید)۔ اس سے پادری متاثر ہوئے تھے اور اپنے خطبہ میں کہا تھا کہ ’’اس کے کپڑے تار تار ہیں، اس کے جسم پر داغ ہے، وہ زخمی ہے اور خون بہہ رہا ہے، اس کا ہارپ (وینا- موسیقی کا ایک آلہ) تباہ ہو چکا تھا، صرف ایک تار باقی رہ گیا تھا۔ پھر بھی اس کے پاس آڈیسٹی (ہمت و جرأت) تھی کہ موسیقی تیار کریں اور خدا کی تعریف و توصیف بیان کریں۔‘‘ اس خطبہ کے الفاظ موجودہ ہندوستانی تناظر میں انتہائی موزوں معلوم پڑ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہندوستانی جمہوریت کی زوال پذیر حالت کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ’امید‘ کو حوصلہ بخشتے ہوئے ’ہماری‘ ہمت و جرأت کو بیدار کرتے ہیں کہ ہندوستانی اپنی جمہوریت کو دوبارہ فتح کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے یہ وہ الیکشن ہو جو اس عمل کی شروعات ہو۔


اپریل ماہ کے اوائل ہفتہ میں جاری ہونے والے ’سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی‘ کے سروے نے بی جے پی قیادت والے این ڈی اے اور کانگریس قیادت والے انڈیا بلاک کے درمیان 5 فیصد ووٹ کا فاصلہ ظاہر کیا تھا۔ یقینی طور پر یہ فاصلہ کم ہو گیا ہے، اور اس کی کچھ وجوہات بھی ہیں۔ 20 سال قبل، یعنی 2004 میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی حکمراں این ڈی اے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ 48 فیصد افراد دوبارہ ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ 2024 میں لوک نیتی کے سروے نے بتایا ہے کہ مودی کو 44 فیصد افراد کی حمایت حاصل ہے۔ 2004 میں بہت کم لوگوں نے حقیقی لہر کو محسوس کیا تھا، بیشتر تو بی جے پی کی ’انڈیا شائننگ‘ مہم کو خود پر حاوی کر چکے تھے۔ دراصل آج میڈیا کے پروپیگنڈہ والے دور میں زمینی حقائق کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ لوگوں کے اندر موجود عدم اطمینان کا اندراج آسان نہیں، لیکن یہ عدم اطمینان موجود ہے (دیکھیے ’دی ٹائمس دے آر اے-چینجن، صفحہ 1)۔ حتیٰ کہ مودی کے چیئرلیڈرس کوئی بھی رکدار نبھانے سے انکار کر دیں، لیکن اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی کے لیے سب کچھ اچھا نہیں ہے۔

اس انتھک پروپیگنڈے کے باوجود تہذیبی (ہندو) عظمت اور (ہندو) متاثرہ ہونے کا ایک ساتھ دعویٰ کرنے کی دوہری کوشش سے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ’400 پار‘ (400 سے زیادہ نشستیں) کا نعرہ دے کر اپنی فتح کے لیے ایک لہر پیدا کرنے کی امید کر رہی تھی۔ حالانکہ یہ دعوے ’انڈیا شائننگ‘ والی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ یہ بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بھلے ہی مودی سے جڑے لوگ سوال نہیں پوچھ رہے، لیکن ملک کے باقی لوگوں نے مودی سے سوال پوچھنا شروع کر دیا ہے۔ ہاں، اس وقت یہ بتانا مشکل امر ہے کہ مودی سے یہ بیزاری کتنی طاقتور ہے، لیکن یہ بیزاری موجود ضرور ہے۔ کافی لوگوں میں، حتیٰ کہ شمالی ہندوستان کے ہندی-ہندو بیلٹ میں بھی یہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ غالباً مودی کے ذریعہ انتخاب کے وقت لامتناہی وعدوں، انتخاب کے وقت استعمال کیے گئے ’جملوں‘ اور ’منگل سوتر‘ سے متعلق ہنگامہ خیز بیان کا یہ اثر ہے۔ نوجوان ملازمت کے لیے نعرہ بازی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے گانٹھ باندھ لیا ہے کہ یہ حکومت نئی سرکاری ملازمتیں پیدا نہیں کر سکتی۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ حکومت خالی اسامیوں کو نہ بھر کر گمراہ کن انداز میں انھیں قلیل مدتی منصوبوں (مثلاً ’اگنی پتھ‘) میں بدل رہی ہے جس میں ریٹائرمنٹ کے بعد والی سہولت اور دیگر فوائد موجود ہی نہیں۔ خواتین مہنگائی سے متعلق شکایت کر رہی ہیں کہ ان کے گھریلو اخراجات بڑھ گئے ہیں جو پورے نہیں ہو رہے۔ حکومت کی طرف سے کھانا پکانے والے گیس سلنڈر پر مشتمل انتہائی مشہور ’اُجولا‘ اسکیم سے بھی خواتین خوش نہیں، کیونکہ وہ سلنڈر کو دوبارہ بھرانے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ اتر پردیش کے غریب ’پسماندہ‘ مسلمان بھی سمجھ رہے ہیں کہ بی جے پی کی ان سے محبت قلیل مدتی ہے، اور وہ تو بنیادی طور پر پسماندہ اور اشرافیہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے والی پارٹی ہے۔ اسی طرح دلت بھی دیکھ رہے ہیں کہ بی جے پی کو اپنا محسن تصور کرنا حماقت ہی ہے۔


محسوس تو ایسا ہی ہو رہا ہے کہ عوام کو اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ انھیں ہلکے میں لیا جا رہا ہے، اور ممکن ہے کہ وہ اس انتخاب میں آگے بڑھ کر زور و شور سے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ یعنی ہمیں اپنی سانس فی الحال نہیں روکنی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔