معاشرے میں خواتین پر بڑھتے مظالم

تشدد کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو رونما ہوکر بھی منظر عام پر نہیں آتے

خواتین کو بچانے کی مہم
خواتین کو بچانے کی مہم
user

علی حیدر

کسی بھی انسان کو بنیادی حقوق سے محروم کردینے کا عمل تشدد کہلاتا ہے آج ترقی یافتہ دور میں بھی تشدد ودیگر گھریلو تشدد کا شکار ہیں یعنی دنیا کی ہر تیسری عورت تشدد کا شکار ہے موجودہ دور کا ہر انسان بے شمار وسائل کے جال میں جکڑا ہواہے زندگی کے بنیادی حقوق اور وسائل کی کمی نے مسائل کی اتنی زیادتی کردی ہے کہ انسان کی ذہنی جسمانی حالت حددرجہ متاثر ہوئی ہے لوگوں میں اشتعال انگیزی اور جذباتیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ بعض اوقات اپنے ہوش کھو کر کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں کہ بعدازاں پچھتاوا ان کا مقدر بن جاتا ہے موجودہ تلخ صورتحال کے باعث اکثر افراد مزاجا پر تشدد ہوگئے ہیں ایسے پر تشدد مزاج کے افراد اپنے ارد گرد موجود ہر اس افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جو وقت کے لحاظ سے ان سے کم تر ہو معاشرے میں بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات خبر کی کہانی اور شہ سرخی کا روپ دھار کر اخبارات کی خبروں اور ٹیلی ویزن کے خبر نامے میں ہم اکثر سنتے پڑھتے اور دیکھتے ہیں مگر یہ تو صرف چند واقعات ہوتے ہیں کہ جن تک ذرائع ابلاغ کے رسائی ممکن ہوتی ہے مگر تشدد کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو رونما ہوکر بھی منظر عام پر نہیں آتے تشدد کی صورت میں ہر انسانیت پامال ہوتی ہے محض مارنے پیٹنے کو ہی تشدد نہیں کہتے بلکہ کسی بھی انسان سے اس کے حقوق چھین لینا طنزیہ اور تنقیدی جملے سنا کر یا بری طرح ڈانٹ ڈپٹ کرنا ذہنی اذیت پہنچانا کسی کے جذبات کا مزاق اڑانا یہ تمام فعل تشددکے دائرے میں آتے ہیں

گھر چار دیواری پر مشتمل سر زمین کا ایک ایسا پر سکون گوشہ ہے جو دن بھر کی تھکان اور بے ہنگم مصروفیات کے بعد انسان کو سکون اور طمانیت کا احساس بخشتا ہے مگر بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو گھر کی چار دیواری کی حدود میں ہی سارا دن گزار دیتے ہیں گھر میں رہنے والے افراد جن میں زیادہ تر گھریلو خواتین ہوتی ہیں اکثر اپنے ہی گھر کے دیگر افراد کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنتی ہے سارا دن گھر سے باہر رہنے والے جب گھر لوٹتے ہیں تو دن بھر کا جمع ہوا غصہ اور مزاج میں چڑ چڑاہٹ ان افراد کو کچھ ایسا مشتعل کردیتی ہیں کہ وہ گھر کے دیگر افارد پر چیخ کر یا مار پیٹ کر کے اپنا غصہ اتار دیتے ہیں۔جس کا زیادی تر شکار گھریلو خواتین ہوتی ہیں کیونکہ مردوں کو برتری حاصل ہے کہ معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو عورت کو اپنا زیر دست سمجھتے ہیں ایسے میں گھر کی حدود میں عورت ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے تو ہم اس قسم کے تشدد کو گھریلو تشدد کا نام دیتے ہیں ۔آج کل تقریبا ہر گھر میں موجود عورت گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے غربت اور تعلیم کی کمی ہے جس کی وجہ سے گھریلو تشدد کی شرح میں اضافہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا جارہا ہے گھریلو تشدد ایک ایسے جراثم کی مانند ہے جو ختم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے وہ اس طرح کہ اگر کسی بچے خصوصاً لڑکی پرورش اگر ایسے گھر میں ہورہی ہے جہاں اس کی ماں تشدد کا شکار ہے تو وہ بشہ ذہنی طور پر پسماندہ ہوجائے گا ۔وہ بچہ خود بھی تشدد پسند ہوجائے گا بے جا ضد کرنا اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہےء اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی تمام تخلیق صلاحتیں ابھرنے کے بجائے ایسے کھٹن زدہ ماحول میں دب جاتی ہیں جو متوسط طبقے کے اکثر گھرونوں میں آج عجیب قسم کا ماحول بنی ہوئی ہے جیسا کہ گھر کا مرد جب دن بھر کے کام نمٹا کر گھر لو ٹتا ہے تو گھر آتے ہی اس کے چیخنے چلانے سے اک دم گھر کا پرسکون ماحول تبدیل ہوجاتاہے ۔جس سے گھر کی عورت اور بچے سہمے سہمے نظر آنے لگتے ہیں مرد حضرات کا چیخنا چلانا ہی گھر کی عورت کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے نا صرف یہ بلکہ چیخنے چلانے والے حضرات کبھی اتنے مشتعل ہو جاتے ہیں کہ اکثر مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور تشدد کا ہر وہ حربہ بروقار لاتے ہیں جس سے عورت کی جان تک چلی جاتی ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔