کیا یورپی یونین کے رکن ممالک سیاسی پناہ کی مشترکہ پالیسی پر متفق ہو جائیں گے؟
لکسمبرگ میں یورپی یونین کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس کا مقصد سیاسی پناہ کی مشترکہ پالیسی پر طویل عرصے سے جاری تنازعہ کا حل تلاش کرنا تھا۔
یورپی بلاک کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ کی بات چیت میں یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پر سیاسی پناہ کے نئے تیز رفتار طریقہ کار کے بارے میں صلاح و مشورے کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔
جرمنی کی وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر پہلے ہی اس کی منظوری کا عندیہ دے چکی ہیں۔ تاہم جرمن حکومت میں شامل جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں سمیت دیگر ناقدین بھی سیاسی پناہ سے متعلق پالیسیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے خوفزدہ ہیں۔ وہ وفاقی حکومت سے یورپی یونین کے اس منصوبے کو مسترد کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔
سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ایک مشترکہ پالیسی سازی ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جو چند سالوں سے یورپی یونین کے رکن مممالک کے لیے بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ یعنی '' یورپ میں داخل ہونے والےپناہ کے متلاشی افراد کی ذمہ داری‘‘ کو کس طرح تمام ممبر ممالک پر برابر تقسیم کیا جائے۔
خاص طور سے نزاع کا باعث یہ موضوع بنا ہوا ہے کہ اجازت کے بغیر کسی خاص رکن ممبر ملک میں آنے والے مہاجرین کی ذمہ داری کن کن ممالک کو قبول کرنا چاہیے اور کیا دوسرے ممبران کو ان سے نمٹنے میں مدد کرنے کا پابند ہونا چاہے؟ لکسمبرگ میں ہونے والے اس اجلاس میں یورپی یونین کے مائیگریشنامور کے اعلیٰ اہلکار، ممبر ممالک کے داخلہ امور کی کمشنر یلوا ژوہانسن نے بھی شرکت کی۔
ژوہانسن کا کہنا تھا، ''یہ ایک غیر معمولی اہم دن ہے۔ ایک ایسے مسئلے کے حل کے لیے جو یورپ کے لیے ''ایک میراتھن‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،'' ہمارے پاس شاید 100 میٹر فاصلہ باقی ہے۔ یعنی ہم اس سنگین مسئلے کے حل کے بہت قریب ہیں۔‘‘ ژوہانسن کے بقول، ''آج ایک معاہدہ کرنا ہے اور میں یورپی یونین کے رکن ممالک سے امید کرتی ہوں کہ وہ ان چند میٹر کے فاصلے کو طے کرتے ہوئے ایک معاہدے پر پہنچ کر اس پر حتمی طور پر اتفاق کر لیں گے۔‘‘ کمشنر یلوا ژوہانسن نے مزید کہا، ''اگر ہم متحد نہ ہوسکے تو ہم سب ہی شکست خوردہ ہوں گے۔‘‘
یورپ کے موجودہ قوانین کے تحت تارکین وطن سیاسی پناہ کے لیے درخواست ورپی یونین کے اسی رکن ملک میں دے سکتے ہیں، جہاں وہ پہلی مرتبہ پہنچتے ہیں۔ انہی ممالک پر لازم ہے کہ وہ تارکین وطن کا انٹرویو کریں اور ان کی اسکریننگ کریں اور ان لوگوں کی درخواستوں پر کارروائی کریں۔
لیکن یونان، اٹلی اور مالٹا اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ پناہ کے متلاشی یا مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور اسے سنبھالنے کا بوجھ بھی بہت مشکل اور بھاری ہے۔ اس قانون کے بعد ایک اور قانون آیا جو کوٹہ سسٹم کو ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔ اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور آخر کار اسے ترک کر دیا گیا۔
یورپی یونین کے ممالک اب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ وہ جو مدد فراہم کرتے ہیں وہ لازمی ہونی چاہیے لیکن اس کی اشکال مختلف ہو سکتی ہیں، مثلاً مائیگریشن شیئرنگ اسکیم کی بجائے مالی اور دیگر مدد کی شکل میں۔
یورپی یونین کی صدارت اس وقت سویڈن کے پاس ہے۔ اس ملک نے ایک نیا نظام تجویز کیا ہے، جس کے تحت وہ ممالک جو تارکین وطن کو اپنے ملک کے اندر نہیں لینا چاہتے وہ امدادی رقم کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ فی مہاجر تقریباً 20,000 یورو کی مد مذکورہ امدادی اسکیم کے اعداد و شمار کے طور پر میٹنگ کے رن اپ میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ تاہم واضح نہیں ہے کہ آیا اسے قبول کیا جائے گا؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔