کيا بھارتی شہری ميل ملاپ ميں فاصلہ رکھ سکيں گے؟
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عوام کو سوشل ڈسٹنسنگ کا مشورہ دیا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت جیسے ترقی پذیر ملک میں اس پر عملدرآمد ممکن نہیں۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بھارت میں سوشل ڈسٹنسنگ کے احکامات پر اس ليے عملدرآمد ممکن نہیں، کیونکہ ملک کی پینتالیس کروڑ افرادی قوت غیر رسمی سیکٹر سے وابستہ ہے، جس کی اپنی اور بال بچوں کی دو وقت کی روٹی یومیہ اجرت پر منحصر ہے۔
اس وقت بھارت کے 80 سے زائد شہروں میں لاک ڈاؤن نافذ ہے، جس کی وجہ سے تمام دکانیں بند ہیں، تعمیرات کے کام رک گئے ہیں اور کارخانوں میں بھی کام کاج بند کر دیا گيا ہے۔ ایسے میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے سامنے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ٹیم پير تيئس مارچ کو جب دارالحکومت نئی دہلی کی صورت حال کا جائزہ لینے نکلی، تو اسے دکانوں اور چھوٹے کارخانوں کے باہر مایوس بیٹھے متعدد افراد دکھائی دیے۔
راجو ریاست اتر پردیش کے گورکھ پور نامی علاقے کا رہنے والا ہے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے دہلی میں مختلف طرح کے کام کرکے اپنا گزر بسر کر رہا ہے اور جو پیسے بچتے ہیں انہيں اپنی بیوی، بچوں کے لیے گھر بھیج دیتا ہے۔ نئی دہلی میں اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔ وہ کسی دوست کے ساتھ اس کی جھونپڑی میں رات گزار ليتا ہے۔ راجو نے بڑی مایوسی کے ساتھ کہا، ”سب سے زیادہ مصیبت تو ہم جیسے يوميہ مزدوروں کی آئی ہوئی ہے۔ ہم تو روز کماتے ہیں اور روز کھاتے ہیں۔ میں روزانہ ڈیڑھ سو سے دو سو روپے کماتا ہوں لیکن اب اگر ہم کوئی کام نہیں کریں گے تو کیا کھائیں گے۔"
شمالی بہار سے تعلق رکھنے والا پروین کمار ایک بند ہوٹل کی آڑ میں اپنے رکشہ پر بیٹھا تھا۔ اسے امید تھی کہ شاید کوئی سواری مل جائے گی اور اسے چند روپے مل جائیں گے۔ لیکن لاک ڈاون کے سرکاری حکم کی وجہ سے بیشتر لوگ اپنے اپنے گھروں کے اندر محدود ہیں۔ پروین کمار کے چہرے سے پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔ ”اب ہم لوگوں کا کوئی یار و مدد گار نہیں ہے اور نہ ہی سواری ہے۔ ایسے میں کھانے پینے کے لیے کہاں سے پیسے لائیں۔ اگر یہی حالات ہفتہ دس دن رہ گئے تو پھر ہم تو کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ٹرینیں بھی بند ہوگئی ہیں۔ اب تو ہم اپنے گاوں بھی نہیں جا سکتے۔ پتہ نہیں اب ہمارا کیا ہوگا۔"
یہ صرف راجیو اور پروین کمار کی نہیں بلکہ ایسے لاکھوں مزدوروں کی کہانی ہے جو بھارت میں غیر رسمی سیکٹر میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہ ملک کے ورکرز کی مجموعی تعداد کا 90 فیصد سے زیادہ ہیں اور بھارت کی مجموعی قومی پيداوار کا تقریباً نصف حصہ غیر رسمی سیکٹر میں کام کرنے والے انہیں مزدوروں کی مرہون منت ہے۔
ان مزدوروں میں سے بیشتر پلمبر، گھریلو ملازم، کوڑا کچرا اکھٹا کرنے والے، رکشہ کھینچنے والے اور خوانچہ فروش ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی یومیہ آمدنی دو ڈالر کے برابر ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس گھر سے کام کرنے کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے، نہ ہی وہ چھٹی کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے کام پر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ایسے میں بڑا سوال یہی ہے کہ وہ سوشل ڈسٹنسنگ سے خود کو کیسے بچا سکیں گے۔ جسے کورونا وائرس سے بچنے کا موثر ذریعہ قرار دیا جارہا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی قوم سے خطاب میں اس پر خاصا زور دیا۔
یونیسیف اور گیٹس فاونڈیشن جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے مشیر رہ چکے پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا میں پروفیسر راجا موہن پانڈا کہتے ہیں، ”اس طرح کی پابندی سے لوگوں کی روزی روٹی بری طرح متاثر ہو جائے گی۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس نہ تو سوشل سیکورٹی ہے اور نہ ہی انشورنس، اس لیے ایسے میں اگر ان کی آمدنی عارضی طور پر بھی متاثر ہوتی، تب بھی اس کا صحت اور کھانے پینے پر اثر پڑے گا اور ان لوگوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت صحت کی دیکھ بھال کے مد میں فی کس صرف 62.72 ڈالر خرچ کرتا ہے جو کہ چین کے مقابلے میں چھٹے حصے سے بھی کم ہے۔ حالانکہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ صحت کے مد میں موجودہ بجٹ کو جی ڈی پی کے 1.2 فیصد سے بڑھا کر 2025 تک2.5 فیصد کردیا جائے گا، لیکن یہ ابھی دور کا خواب ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے فیصلے نے وزیر اعظم مودی کے ايک دھماکہ خیز فیصلے کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ نومبر 2018 میں ایک رات اچانک قوم سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے بڑے کرنسی نوٹوں کے چلن کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا جس کی وجہ سے بھارت میں ہر طرف ہنگامہ مچ گیا تھا۔ لوگوں کی ملازمتیں بڑی تعداد میں چلی گئیں، اقتصادی ترقی کی رفتار سست پڑ گئی۔ حتی کہ لوگوں کو اپنے ہی پیسے لینے کے لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔
کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں بھی اسی طرح کی پریشانی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ گوکہ بعض ریاستوں نے غریبوں کے لیے امدادی اسکیموں کا اعلان کیا تاہم وزیر اعظم مودی کی قیادت والی وفاقی حکومت کی طرف سے اس طرح کے کسی اعلان کا ہنوز انتظار ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔