بے ہنگم ٹریفک کا سیاست سے تعلق
جیسے کسی معاشرے کے نظام تعلیم کا اس کے مستقبل سے گہرا رشتہ ہوتا ہے ویسے ہی کسی ملک میں ٹریفک کے نظام کا وہاں کی سیاست سے بھی براہ راست تعلق ہوتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ ترقی یافتہ ہو، ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ، اس کے نظام تعلیم کا اس کے مستقبل سے گہرا رشتہ اس طرح بنتا ہے کہ آج اگر کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کو تعلیم و تربیت اچھی طرح دی جائے گی، اسے تخلیقی سوچ کو استعمال میں لانا اور جو کچھ پڑھایا جائے اس پر عمل کرنا بھی سکھایا جائے، تو ایسے ہر معاشرے کا مستقبل اس کے حال سے بہتر ہی ہو گا۔
اسی طرح نپولین نے اگر ایک بار یہ کہا تھا، ''تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا،‘‘ تو یہ بیان بھی ایک بڑی حقیقت کے شعور ہی کا نتیجہ تھا۔ مطلب یہ تھا کہ پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ مائیں جب اپنے بچوں کی پرورش کریں گی، تو نئی نسل بھی باشعور اور انہی اقدار کی حامل ہو گی، جو ان کو منتقل کی جائیں گی۔ یوں اس عمل کے نتیجے میں ایک اچھی، باشعور اور تعلیم یافتہ قوم کا وجود میں آنا یقینی بات ہو گی۔
اسی طرح کسی بھی ملک میں ٹریفک کے نظام کا وہاں کی سیاست سے بھی براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ تعلق کیا کسی بھی معاشرے میں ٹریفک کا نظام وہاں کی سیاست اور سیاسی نظام کا باقاعدہ عکاس ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں لیجیے کہ چاہے وہاں بادشاہت ہو، آئینی بادشاہت ہو یا پارلیمانی جمہوریت، مغربی ممالک کے کافی متنوع سیاسی نظام دیکھ لیجیے اور وہاں نظر آنے والے ٹریفک نظام کو بھی۔ وہاں آپ کو ٹریفک بھی زیادہ تر اتنی ہی منظم نظر آئی گی، جتنی کہ بالعموم سیاست کرپشن سے پاک۔
کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ مغربی ممالک میں ٹریفک میں بدنظمی دیکھنے میں نہیں آتی یا سیاست میں قانونی شکنی اور بدعنوانی نہیں ہوتی۔ اہم بات یہ ہے کہ اقلیتی رجحانات کو اکثریتی رویوں کی شناخت دے کر اور زیادہ تر سفید کو پوری طرح کالا قرار دے کر سچ کو بدلہ نہ جائے بلکہ وہ جیسا ہے، اسے ویسے ہی تسلیم کیا جائے۔
اس کے برعکس جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی سیاست دیکھیے، اور وہاں سڑکوں پر نظر آنے والی ٹریفک کو بھی۔ بلکہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ بات صرف پاکستان ہی کی کی جائے۔
پاکستانی ٹریفک میں آپ کو عام شہریوں اور ڈرائیوروں کی طرف سے ٹریفک قوانین کی جو خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور جن کی وجہ سے ہر سال پاکستانی شہریوں کے کام کے کئی سو ملین گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہنے کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں، وہ اقتصادی پیداواری حوالے سے بھی پاکستانی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
پاکستان کے زیادہ آبادی والے شہروں میں عام شاہراہوں پر ٹریفک کا ہر روز مخصوص اوقات میں جام رہنا، قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر کسی کا دوسرے سے پہلے آگے نکل جانے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ سڑکوں پر عوام کے بدنظمی سے عبارت رویوں ہی کا ثبوت نہیں بلکہ ملکی سیاست کا آئینہ بھی ہے۔
کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں موٹر ویز پر تو ٹریفک کی صورت حال ایسی نہیں ہوتی، تو پھر پاکستان کا ٹریفک کا نظام اتنا غلط بھی نہ ہوا۔ ایسی کوئی دلیل دینا اس لیے غلط ہو گا کہ پاکستان میں ہر جگہ صرف موٹر ویز ہی نہیں ہیں۔ موٹر ویز تو پاکستانی سڑکوں کی مجموعی لمبائی کا عشر عشیر بھی نہیں بنتیں۔ موٹر ویز پر تو ٹریفک بھی مقابلتاﹰ کم ہوتی ہے اور پھر موٹر وے پولیس بھی گشت کرتی رہتی ہے۔ اس لیے کشادہ موٹر ویز، کم ٹریفک اور پکڑے جانے کا خوف ڈرائیوروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے سے روک دیتے ہیں۔
دیکھنا ہو تو جی ٹی روڈ پر ٹریفک دیکھیے، اس کے علاوہ کراچی، لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور پشاور (محض چند مثالیں) جیسے شہروں کے اندرونی حصوں میں ٹریفک کی حالت دیکھیے، وقت گزرتا جائے گا لیکن آپ اپنی سواری میں بیٹھے اپنی جگہ سے ہل نہیں سکیں گے۔ اسی طرح بسوں، ویگنوں، موٹر گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں سے نکلنے والا دھواں آپ کے پھیپھڑوں میں پہنچ کر آپ کے لیے سانس لینا مشکل بناتا رہے گا اور انتہائی آلودہ ہوا میں جی متلانا، وہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔
پاکستان کی ٹریفک ملکی سیاست کی عکاسی اس طرح کرتی ہے کہ جو ڈرائیور سٹرک پر اپنی لین بنا سوچے سمجھے بدل لیتے ہیں، وہی بطور ووٹر یا ان کے منتخب کردہ اور انہی جیسے سیاسی رہنما ہی بعد میں یونین کونسل اور بلدیاتی اداروں سے لے کر قومی پارلیمانی اداروں تک کے وہ ارکان ہوتے ہیں، جن کے لیے اپنی پارٹی اور سیاسی ہمدردیاں بدلنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کسی حلقے میں کس پارٹی کی عوامی حمایت زیادہ ہے، اسی جماعت کا امیدوار بننا عقل مندی سمجھا جاتا ہے۔ یا پھر یہ کہ بلدیاتی سے لے کر صوبائی اور قومی سطح تک اگلی مرتبہ اقتدار کس جماعت کو ملنے کا امکان زیادہ ہے، بس اسی جماعت کے رہنما سے ملیے، پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیجیے اور اگر ''عوامی رائے دہی اور سیاسی انتخاب کی سڑک کسی اچانک سیلاب میں نہ بہہ جائے،‘‘ تو آپ کا اپنے انتخابی حلقے سے کامیاب ہونا پکی بات ہے۔
پاکستان میں ٹریفک اور سیاست کے نظاموں میں ایک اور مماثلت یہ بھی ہے کہ جس طرح ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی ڈرائیور کسی ٹریفک کانسٹیبل یا وارڈن کو کچھ رقم دے کر چالان سے بچ جاتا ہے، اسی طرح کا کردار سیاست میں قیمے والے نان اور بریانی بھی ادا کرتے ہیں۔
جن ووٹروں کو سال بھر کیا، چار چار سال تک کوئی منتخب نمائندہ دوبارہ منہ نہیں لگاتا، وہ اگلی مرتبہ الیکشن میں پھر اسی سیاسی رہنما کے حق میں ووٹ دے آتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں قیمے والے نان یا بریانی کی پلیٹ کے علاوہ گھر سے پولنگ اسٹیشن تک مفت سواری کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔ تو ایسے میں ووٹر بھی ان ٹریفک پولیس اہلکاروں جیسے ہو جاتے ہیں، جو چالان کر سکنے کے باوجود چالان کرتے نہیں۔
پاکستان میں جس دن ٹریفک بے ہنگم سے منظم ہو گئی، اس دن ملکی سیاسی نظام بھی کسی نہ کسی حد تک تو ٹھیک ہو ہی جائے گا۔ ہو تو یہ بھی سکتا ہے کہ جس دن سیاسی نظام میں اصول پسندی اور ضوابط کا احترام کرنا بھی شامل ہو گیا، اسی دن ٹریفک سسٹم بھی منظم اور تیز ہو جائے گا، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔