مہاتما گاندھی سے منسوب تصورات: حقائق یا افسانے

ہندوستانی تحریک آزادی کے ایک رہنما موہن داس گاندھی کی 75 ویں برسی پر ہم اُن کی جنسیت، ان کی نسل پرستی، ہٹلر کے ساتھ ان کی مبینہ دوستی اوردلائی لامہ سےملاقات کے بارے میں جواب تلاش کریں گے۔

مہاتما گاندھی سے منسوب پانچ  تصورات: حقائق یا افسانے
مہاتما گاندھی سے منسوب پانچ تصورات: حقائق یا افسانے
user

Dw

30 جنوری 2023ء کو یعنی آج موہن داس کرم چند گاندھی کے قتل کی 75 ویں برسی ہے۔ گاندھی، جنہیں ''مہاتما‘‘ (عظیم روح) کے نام سے جانا جاتا ہے، 1947ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے معروف ترین سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ 78 سال کی عمر میں وہ قوم پرستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ آج تک گاندھی کو عدم تشدد کی تحریک چلانے والی دنیا کی ایک منفرد شخصیت کے طور پر قابل احترام سمجھا جاتا ہے تاہم آج بھی ان سے منسوب کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں چہ مگوئیاں کی جاتی ہے۔

کیا گاندھی کی اڈولف ہٹلر کے ساتھ دوستی تھی؟

دعویٰ: مہاتما گاندھی اور اڈولف ہٹلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں دوست تھے۔گاندھی کی طرف سے ہٹلر کے نام لکھے گئے خطوط جس میں گاندھی ہٹلر کو ''پیارے دوست‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور ''آپ کا مخلص دوست‘‘ پر اپنے خطوط کا اختتام کرتے تھے،کوان دونوں کی دوستی کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے۔


ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: مفروضہ غلط

یہ حقیقت ہے کہ گاندھی نے ہٹلر کو دو خطوط لکھے، ایک 23 جولائی 1939ء اور دوسرا 24 دسمبر 1940ء کو۔ تاریخی دستاویز میں سب سے زیادہ حوالہ ان دونوں کا درج ہے۔ خود گاندھی کی اپنی تحریروں میں بھی۔ مثال کے طور پر گاندھی کی تحریروں پر مشتمل جلد نمبر 76 کے صفحہ نمبر 156 اور 453 پر۔ تاہم ان خطوط میں کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ دونوں قریبی دوستی میں مبتلا تھے۔

گاندھی کے ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے تو ہٹلر سے جنگ شروع نہ کرنے کی التجا کی تھی جبکہ دوسرے خط میں، جب تک دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی، مہاتما گاندھی نے ہٹلر سے امن کی جدوجہد کی بات کی تھی تاہم ہٹلر نے گاندھی کے خطوط کبھی دیکھے ہی نہیں۔


ہندوستانی مؤرخ ونے لال اور امریکی ماہر سیاسیات کیلی رائے کریمر اور چند دیگر ذرائع کے مطابق برطانوی حکمرانوں نے گاندھی کے ہٹلر کے نام ان خطوط کی ترسیل کو روکے رکھا اور وہ گاندھی تک پہنچ ہی نہیں سکے تھے۔

ونے لال نے، جنہوں نے گاندھی پر تفصیلی تحقیق کر رکھی ہے، ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ گاندھی کے خطوط میں استعمال ہونے والے ''پیارے دوست‘‘ جیسے الفاظ تخاطب کے اور مؤدبانہ سلام ضرور موجود تھا مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ ''گاندھی کا ماننا تھا کہ انسان شیطانی حرکتیں یا عمل کر سکتے ہیں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خود شیطان ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہٹلر بھی خود شیطان نہیں تھا۔‘‘


امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی (UCLA) کی پروفیسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی نے ہٹلر کو اس انداز سے کیوں لکھا، اس کی ایک وجہ تھی۔ پروفیسر کریمر کے خیال میں، ''گاندھی اپنے مخالفین تک کے ساتھ احترام اور دوستانہ سلوک روا رکھنے کے عادی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح کے سلوک کے ساتھ اپنے مخالف کو بھی کسی بات کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے۔ احترام و دوستی گاندھی کے عدم تشدد کے خلاف مزاحمت کے بنیادی رویے، ستیہ گرہ کا حصہ تھی۔‘‘

کیا گاندھی نسل پرست تھے؟

دعویٰ: سوشل نیٹ ورکس پر بہت سی پوسٹس سے گاندھی کے سیاہ فام باشندوں کے خلاف تعصب کا اشارہ ملتا ہے۔ نسل پرستی کے ایسے الزامات کی وجہ سے 2018 ء میں گھانا یونیورسٹی کے کیمپس سے گاندھی کا مجسمہ بھی ہٹا دیا گیا تھا۔ 2020 میں، ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ کے مظاہروں کے تناظر میں، ہزاروں افراد نے لندن میں ایک پٹیشن پر دستخط کیے جس میں درج تھا کہ گاندھی کے مجسمے کو گرایا جائے۔


ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: یہ مفروضہ گمراہ کن

گاندھی ایک مختصر وقفے کے ساتھ 1893ء سے 1914ء تک جنوبی افریقہ میں رہے۔ وہاں بطور ایک نوجوان وکیل کے ان کی شخصیت ناانصافی اور امتیازی سلوک کے خلاف ایک سرگرم کارکن کی شکل میں مزید نکھر کر سامنے آئی تاہم انہوں نے ابتدا میں جنوبی افریقہ میں صرف گوروں کے تناظر میں ہندوستانی تارکین وطن پر توجہ مرکوز کی جیسا کہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے۔

پہلی جلد میں، صفحہ 410 پر، گاندھی لکھتے ہیں، ''ہماری زندگی اس ذلت کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد ہے جو یورپی ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، جو ہمیں کافر کے درجے پر لاتے ہیں۔ یہ ایک اصطلاح ہے جو پہلے جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ جن کے نسل پرستانہ مفہوم نوآبادیاتی دور کے آخر میں اور نسل پرستی کے دوران بڑھتے ہیں۔‘‘


تاریخ دان ونے لال کے بقول، ''اگر کوئی پوچھے کہ کیا گاندھی نسل پرست تھے، تو جواب، جنوبی افریقہ میں گزارے ہوئے ان کے اپنے وقت کے ایک مخصوص دور کی بنیاد پر، ہاں میں ہی دیا جائے گا۔‘‘ دیگر ماہرین نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے ہیں۔ مثال کے طور پر آشون ڈیسائی اور غلام واحد نے اپنی سن 2015 کی متبوعہ کتاب ''دی ساؤتھ افریقن گاندھی‘‘ میں ان پر خاصی تنقید کی ہے۔

ایک معروف صحافی اور گاندھی کے سوانح نگار رام چندر گوہا اخبار ''ٹیلی گراف انڈیا‘‘ کے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ گاندھی بلاشبہ 20 کی دہائی میں نسل پرست تھے۔ لیکن 30 کی دہائی کے وسط میں، انہوں نے جنوبی افریقہ میں، سیاہ فاموں کو ہندوستانیوں سے کمتر قرار دینا چھوڑ دیا اور اس کی بجائے مساوی حقوق کے حق میں بات کی۔‘‘ اس کی رام چندر نے کئی مثالیں دیں۔ اُدھر تاریخ دان ونے لال کے مطابق کسی نے بھی گاندھی سے جنوبی افریقہ میں سیاہ فام لوگوں کا وکیل بننے کو نہیں کہا۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا بھی ہوتا تو یقیناً بہت سے لوگ اُسے گستاخی سمجھتے۔


کیا مہاتما گاندھی اور دلائی لامہ کی کبھی ملاقات ہوئی؟

دعویٰ: گاندھی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ تبتی لباس میں ملبوس ایک بچے، 'دلائی لامہ‘ کے ساتھ لندن میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں کی ملاقات برطانیہ کے دارالحکومت میں ہوئی تھی۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: غلط خیال

تصویر میں گاندھی اور تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن تصویر ایک مونٹاج یا ''مرکب سازی ‘‘ کا شاہکار ہے کیونکہ دونوں کبھی نہیں ملے۔ گاندھیکی اصل تصویر، 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ، لندن میں گیٹی امیجز فوٹو ایجنسی کے پاس ہے، اور اس کی تاریخ تین نومبر 1931ء ہے۔ یہ دلائی لامہ کی پیدائش سے چند سال پہلے کی بات ہوگی، جو ان کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق سن 1935 میں پیدا ہوئے۔


وہاں آپ کو دلائی لامہ کی بچپن کی اصل تصویر بھی مل جائے گی۔ خصوصی سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے تصویر کا تجزیہ، فرانزک طور پر کیا گیا اور اس کے بارے میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ اس میں رد وبدل کیا گیا ہے۔ جب کسی تصویر میں خارجی مواد شامل کیا جاتا ہے، تو یہ عام طور پر نظر آنے والے نشانات چھوڑتا ہے۔ اس رد دوبدل کا اندازہ اس سے بھی لگایا گیا کہ اس تصویر میں دلائی لامہ کی شکل باقی تصویر سے ہلکی دکھائی دیتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔