کیوں پاکستانی مزدور کابل سے سعودی عرب جانے کے لیے مجبور ہیں؟
بم دھماکوں اور سکیورٹی خطرات کے باوجود افغانستان کا دارالحکومت کابل بیرون ملک جانے والے پاکستانی مسافروں کی نئی منزل بن چکا ہے۔ پاکستان کے ملازمین بذریعہ کابل ہوائی اڈہ خلیجی ممالک تک پہنچنا چاہتے ہیں
پاکستان میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے مریضوں کی وجہ سے متعدد ممالک اس ملک کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کر چکے ہیں جبکہ چند ایک نے پاکستان کو 'ٹریول بلیک لسٹ‘ میں بھی شامل کر رکھا ہے۔ اس مشکل صورتحال کے باعث پاکستان کے ہزاروں شہری کسی نہ کسی طرح سعودی عرب پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ ایسے مسافر دو ہفتے کابل میں گزارنے کے بعد اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔
اسلام آباد میں واقع افغانستان کے سفارت خانے کے سامنے لگی قطار میں لاہور کے اکتیس سالہ الیکٹریکل انجینئیر صحیب صدیقی بھی کھڑے ہیں۔ ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں کچھ پریشان بھی ہوں۔ لیکن میں یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ صحیب صدیقی سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں اور یوں وہ اپنی فیملی کو ماہانہ کم از کم بھی پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے بھیجنے کے قابل ہوتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں لاکھوں پاکستانی ملازمت کرتے ہیں اور اس طرح مشکلات کی شکار پاکستانی معیشت کو سالانہ بنیادوں پر اربوں ڈالر بطور زرمبادلہ حاصل ہوتے ہیں۔
ہزاروں پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں
افغان سفارت خانے کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ صرف گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہزاروں پاکستانی افغانستان کے ٹرانزٹ ویزے کے لیے اپلائی کر چکے ہیں۔ صرف گزشتہ ایک ہفتے میں سینکڑوں افراد نے افغان سفارت خانے کے سامنے رات گزاری تاکہ وہ اپنے کاغذات جمع کروا سکیں۔
کابل میں موجود ایک ٹریول ایجنٹ کے مطابق پاکستانی شہریوں کی یہ حکمت عملی لازمی نہیں کہ ہمیشہ کامیاب ہو کیوں کہ حال ہی میں سعودی عرب جانے والی ایک براہ راست پرواز منسوخ کر دی گئی تھی۔ تاہم 'سعودی ریزیڈینس پرمٹ‘ رکھنے والوں کے لیے خصوصی پروازوں کا انتظام موجود ہے اور ٹکٹ تقریبا تیرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔
کابل ہوائی اڈے پر پاکستانی مسافروں کی تعداد میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب غیرملکی ملکی افواج بیس سالہ جنگ کے بعد اس ملک سے نکل رہی ہیں۔ کابل میں آباد شہریوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان مخالف جذبات رکھتی ہے کیوں کہ ان کی نظر میں طالبان کو اسلام آباد حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
کابل کی لیبارٹریوں میں پاکستانیوں کی بڑھتی تعداد
افغان ویزے کے لیے سفارت خانے کے سامنے لائن میں کھڑے تنویر احمد کا کہنا تھا، ''ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ دوسری جانب کابل میں واقع لیبارٹریوں میں بھی پاکستانیوں کا رش بڑھ چکا ہے کیوں کہ انہیں سعودی عرب میں داخل ہونے کے لیے کووڈ انیس کی منفی رپورٹ درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران کابل میں کورونا ٹیسٹ کروانے والوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔
ایک لیبارٹری ٹیسٹ سینٹر کے ڈاکٹر صدیق اللہ صافی کا کہنا تھا، ''سعودی اور پاکستانی افغان لیبارٹریوں پر اعتبار کرتے ہیں۔‘‘ ان کا امید ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس طرح دارالحکومت کی کمزور ہوتی معیشت کو مدد مل سکتی ہے، ''پاکستانیوں کے یہاں آنے کے فوائد ہیں۔ وہ شاپنگ پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں، ٹرانسپورٹیشن پر اور ظاہر ہے کورونا ٹیسٹوں پر بھی۔‘‘
پاکستان کے انور خان دو ہفتے دارالحکومت کابل میں گزار چکے ہیں اور جلد ہی سعودی عرب کی فلائیٹ لینے کی امید میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''ظاہر ہے کابل میں سکیورٹی کا مسئلہ تو ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ابھی تک کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔‘‘
دوسری جانب عیدالفطر کے بعد سے افغانستان میں بھی کورونا کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دن اچانک اس ملک کے حوالے سے بھی قوانین تبدیل ہو جائیں اور پروازیں منسوخ کر دی جائیں۔ ایسی صورت میں پاکستانی شہری افغانستان میں پھنس کر بھی رہ سکتے ہیں اور ان کی جمع پونجی بھی ضائع ہو سکتی ہے۔ کاغذات جمع کروانے کی لائن میں کھڑے لیاقت علی کا کہنا تھا، ''میرے چھوٹے بچے ہیں گھر پر اور آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہے۔ ہم افغانستان جانے کا رسک لے رہے ہیں لیکن کسی کے پاس کوئی گارنٹی نہیں ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔