کے ٹو پر موت: کیا محمد حسن کو بچایا جا سکتا تھا؟
27 سالہ پاکستانی پورٹر نے اپنی بیمار ماں کے علاج کے لیے آٹھ ہزار سے زائد بلندی پر جانے کا رسک لیا۔ محمد حسن کی موت کے بعد ایک نارویجن خاتون کوہ پیما کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان میں کوہ پیمائی کی ایک حالیہ مہم کے دوران ایک مقامی پورٹر کی موت سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز پریشان کن ہیں۔ ان میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کو ایک پاکستانی پورٹر محمد حسن کے جسم پر سے گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ حادثہ پاکستان میں واقع اور سطح سمندر سے 8,611 میٹر بلند دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پر پیش آیا۔
اس واقعے کے نتیجے میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے ایک انکوائری کمیشن بھی تشکیل دیا ہے۔ اس تحقیقاتی کمشین کوجن سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا کام سونپا گیا ہے وہ یہ ہیں: 27 جولائی کو حسن کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا اس کی جان بچانے کے لیے سب کچھ ممکن تھا؟ کیا اسے کوہ پیمائی کی مہارت کی بنیاد پر وہاں تک جانے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی؟ کیا وہ کےٹو کی اونچائی والے پورٹر کے طور پر اپنے کام کے لیے ضروری سامان سے لیس تھا؟
کم اونچائی کا تجربہ، ناقص تیاری
آخری سوال کا جواب بالکل واضح طور پر 'نہیں‘ ہے۔ حسن کی بیوہ نے آسٹریا کے ایک کوہ پیما ولہیم سٹینڈل اور جرمن فلمساز فلپ فلیمگ کو بتایا کہ اس کے شوہر پہلے صرف 5,100 میٹر کے فاصلے پر کےٹو بیس کیمپ تک سامان لے کر گئے تھے۔
اس بار تاہم 27 سالہ حسن 8,000 میٹر سے بھی زائد بلندی کے سفر پر روانہ ہوئے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیمار ماں کے علاج کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔ حسن نے اس ٹیم کا ساتھ دیا، جس نے رسیوں کے ساتھ چوٹی پر جانے کے راستے کو محفوظ بنایا۔ اس دن تقریباً 200 کوہ پیما چوٹی تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے، ان میں سے تقریباً نصف ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے۔
حسن کے پاس نہ تو انتہائی اونچائی پر کوہ پیمائی کے لیے ضروری تجربہ تھا بلکہ ان کے پاس ساز و سامان کی بھی کمی تھی۔ اس مہم میں شامل ناروے کی کوہ پیما کرسٹن ہریلا کے مطابق محمد حسن نے ٹھنڈ سے بچانے کے لیے زیر لباس لازمی کپڑے اور آکسیجن ماسک نہیں پہنا ہوا تھا۔ ہریلا اپنے نیپالی پہاڑی گائیڈ تینجین شیرپا کے تعاون سے چوٹی تک پہنچنے والوں میں شامل تھیں۔
کسی کی غلطی نہیں، کرسٹن ہریلا
ہریلا کا کہنا ہے کہ وہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر آن لائن بدسلوکی کا نشانہ بنی ہیں، ان پر حسن کی مدد کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا گیا ہے - اور یہاں تک کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ اب انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ''یہ کسی کی غلطی نہیں تھی، جب آپ صورتحال کو نہیں سمجھتے تو آپ تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘‘
"یہ دنیا کے مہلک ترین پہاڑ کے سب سے خطرناک حصے میں ہوا، اور آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ 8000 پلس میٹرز پر آپ کی بقا کی جبلت آپ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔" ہریلا نے بتایا کہ جب حسن اچانک کسی نامعلوم وجہ سے پھسلتے ہوئے ابتدائی طور پر رسی کے ساتھ الٹے لٹک گئے تو ان (ہریلا) کی ٹیم اس پاکستانی پورٹر کی مدد کے لیے پہنچی تھی۔ انہوں نے بتایا کے ان کی ٹیم کے کیمرہ مین تقریباً ڈھائی گھنٹے حسن کے ساتھ رہے تھے اور انہیں آکسیجن فراہم کی۔
ایک سُبک یا سست رفتار موت؟
یہ حادثہ کے ٹو پر چڑھنے کے لیے راستے کے ایک اہم مقام 'باٹل نیک‘ پر پیش آیا۔ وہاں کوہ پیماؤں کو ایک بہت ہی چڑھائی والے تنگ اور براہ راست گلیشیر کے نیچے ہونے کی وجہ سے ہر وقت برفانی تودے گرنے کے خطرے سے دوچار حصے کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ ہر کوئی جلد از جلد وہاں سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے۔
27 جولائی کو چوٹی تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے کوہ پیماؤں کی بڑی تعداد کی وجہ سے اس حصے مین رکاوٹ پیدا ہونے کی وجہ سے ایک لمبی قطار بن گئی تھی اور یہ گھنٹوں تک جاری رہی۔ کوہ پیمائی کی پاکستانی ایجنسی لیلیٰ، جس کے لیے حسن کام کرتے تھے، اس کے سربراہ انور سید کا کہنا تھا کہ پورٹر کو زیادہ دیر تک تکلیف نہیں ہوئی۔
سید نے کہا، ''وہ چند لمحوں کے بعد ہی چل بسے تھے تو درحقیقت ان کے بچاؤ کے لیے کافی وقت نہیں تھا۔‘‘ ان کا یہ بیان نہ صرف ہریلا کے بیان بلکہ جرمن فلم ساز فلیمگ طرف سے شوٹ کی گئی ڈرون فوٹیج سے بھی متصادم ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک کوہ پیما حسن کو دن کی روشنی میں برف پر لیٹا کر مساج کر رہا ہے۔ حسن کی ٹانگ اب بھی ہلتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ حادثہ رات سوا دو بجے کے قریب پیش آٰیا تھا۔
اس دن چوٹی پر پہنچنے والا ہر شخص حسن کے وجود سے پھلانگتے ہوئے گزرا، کچھ تو چوٹی پر جاتے اور پھر واپسی پر بھی وہیں سے گزرے۔ فلیمگ نے ویانا کے روزنامہ ڈیراسٹینڈرڈ کو بتایا، "تین مختلف عینی شاہدین کے اکاؤنٹس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ شخص اس وقت تک زندہ تھا جب کہ 50 کے قریب لوگ اس کے پاس سے گزرے۔ یہ ڈرون فوٹیج میں بھی نظر آتا ہے۔"
بیس کیمپ پارٹی
ولی اسٹینڈل نے برفانی تودے کے خطرے کو بھانپتے ہوئے، چوٹی سر کرنے کی اپنی کوشش ترک کر دی تھی۔ اسٹینڈل نے "ڈیر سٹینڈرڈ" کو بتایا،''وہ وہیں بری طرح مر گیا۔ اسے نیچے لانے میں صرف تین یا چار لوگوں کی ضرورت پڑنی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا،''میں جائے حادثہ پر نہیں تھا، اگر میں اسے دیکھ لیتا تو اوپر چڑھ کر اس غریب کی مدد کرتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بعد میں ہریلا کی فتح کا جشن بیس کیمپ میں ایک پارٹی کے ساتھ منایا گیا۔
اسٹینڈل نے مزید کہا، ''میں نہیں گیا، اس لیے کہ یہ مجھے ناگوار گزرا۔ ایک شخص کی موت ہوئی تھی۔‘‘ اگرچہ اسٹینڈل ذاتی طور پراس معاملے میں ملوث نہیں تھے لیکن انہوں نے کے ٹو کی مہم پر گئی ٹیموں سے رقم اکٹھی کی اور اسے حسن کے خاندان تک پہنچایا۔ انہوں نے حسن کے تین چھوٹے بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانے میں مدد کے لیے ایک انٹرنیٹ فنڈ ریزنگ مہم بھی شروع کی ہے۔ پاکستان میں عموماً اونچائی پر کام کرنے والے پورٹرز کو موت کی صورت میں تقریباً 1,500 ڈالر کے برابر بیمہ دیا جاتا ہے۔
محمد حسن کی قسمت حالیہ برسوں میں ماؤنٹ ایورسٹ پر کوہ پیمائی کے دوران پیش آنے والے اسی نوعیت کے ایک واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ 2006 میں ایک برطانوی کوہ پیما ڈیوڈ شارپ بلندی پر پہنچنے کے بعد بیمار ہو گئے اور اس دوران متعدد کوہ پیما ان کے قریب سے گزرے۔ لیکن ان کی مدد کے لیے کوئی بھی نہیں رکا۔ اس 34 سالہ نوجوان کی موت سطح سمندر سے تقریباً 8500 میٹر کی بلندی پر ہوئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔