وہ غلطیاں جو کپتان کو لے ڈوبیں

پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آج وزیراعظم عمران خان کو جن مشکلات کا سامنا ہے، ان کو اس حال تک پہنچانے میں ان کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ یہ غلطیاں کونسی ہیں؟

وہ غلطیاں جو کپتان کو لے ڈوبیں
وہ غلطیاں جو کپتان کو لے ڈوبیں
user

Dw

پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان سیاسی تنہائی کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے اتحادی اور دیرینہ ساتھی ان کو چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو عالمی سازش قرار دے کر اس کا سامنا کرنے سے گریز کیا ہے۔ اپنی قومی اسمبلی کو وہ اپنے ہی ہاتھوں تحلیل کر چکے ہیں۔ پاکستان کا ایک مقبول ترین سیاسی رہنما اس حال کو کیسے پہنچا یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب عمران خان کے دوست ہی نہیں مخالف بھی تلاش کر رہے ہیں۔

پاکستان کے ایک دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی کارکردگی کا دیانت داری سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، جہاں ان سے کئی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہاں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ عمران حکومت کے دور میں کورونا وبا سے نمٹنے میں کامیابی، اورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم میں 40 سے 50 فی صد تک اضافہ، برآمدات میں غیر معمولی بہتری، ٹیکس ریوینیو میں اضافہ، نئے ڈیمز کی تعمیر کا آغاز اور احساس پروگرام کا اجرا وغیرہ جیسے کئی منصوبے بھی شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک عمران خان کی مشکلات کی وجہ بننے والی چند بڑی بڑی غلطیاں درج ذیل ہیں۔


سیاسی اشرافیہ پر انحصار

دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید کہتے ہیں کہ پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کی بجائے مختلف پارٹیوں سے آنے والے الیکٹیبلز پر عمران خان کا بہت زیادہ انحصار مناسب نہیں تھا۔ انہی لوگوں کی وجہ سے وہ کمپرومائز پر مجبور ہوئے۔ آج جن لوگوں کو پی ٹی آئی والے لوٹے، میر جعفر، میر صادق اور ضمیر فروش کے القاب سے نواز رہے ہیں انہیں عمران خان نے اپنی آمادگی اور خوشی کے ساتھ پارٹی میں شامل کیا تھا اور ان کو بڑے بڑے عہدے دیے تھے۔ ان کے بقول چوہدری سرور ن لیگ سے آئے تھے اب وہ کسی اور پارٹی میں چلے جائیں گے۔ عمر سرفراز چیمہ جیسا نظریاتی اور پرانا کارکن جسے اب گورنر بنایا گیا ہے کون نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی کا یہ مخلص نوجوان پچھلے کافی عرصے سے سائڈ لائن پر ہی رہا ہے۔

کہانی کچھ اور ہی ہے

روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے گروپ ایڈیٹر سید ارشاد عارف کہتے ہیں کہ اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ الیکٹیبلز کو عمران خان پارٹی میں لائے تھے یا پھر کسی اور نے اپنے ایجنڈے کے تحت ان کو پی ٹی آئی میں بھیجا تھا، ''اب صرف الیکٹیبلز ہی نہیں پارٹی والے بھی عمران کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اصل میں اسٹوری کچھ اور ہے۔‘‘ سید ارشاد عارف کا خیال ہے کہ موجودہ بحران تو بیرونی سازش کا ہی نتیجہ ہے لیکن عمران خان کی ایسی بہت سے غلطیاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ آج مشکلات کا شکار ہیں۔


اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات

فارووق حمید بتاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات برقرار نہ رکھ سکنا بھی عمران خان کی ناکامی اور غلطی تھی۔ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ ان کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی جائے۔ ان کے بقول آئی ایس آئی کے سربراہ کے نوٹیفیکیشن کے اجراء میں رخنہ اندازی اور تاخیری حربے بھی عمران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلوں کا باعث بنے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیر اعظم کے ضدی طرز عمل پر مبنی کئی ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، جن کے مطابق عمران حکومت سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمانہ تعلقات کو نقصان پہنچا۔ ممتاز تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے مطابق زمینی حقائق کے برعکس عمران خان یہی سمجھتے رہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر ان کا استحقاق ہے اور وہ بظاہر اس استحقاق کو استعمال کرنے پر مضر رہے۔

پارٹی اختلافات حل کرنے میں ناکامی

بریگیڈیئر (ر) فارووق حمید کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد ایک طرف پارٹی کے مخلص اور درینہ کارکن نظرانداز ہوتے گئے۔ دوسری طرف پارٹی میں موجود لوگوں کے باہمی اختلافات میں شدت آتی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان اس گروپ بازی کو روکنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے پارٹی گروپوں میں موجود سنگین اختلافات سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے اختلافی گروپ تقویت پکڑتے گئے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت اتحادیوں کو آن بورڈ رکھنے میں ناکام رہی۔ یہی صورتحال بہت سے ارکان پارلیمنٹ کی بھی تھی۔


غیر منتخب مشیر اور ان کی جارحانہ پالیسی

فاروق حمید کے مطابق وہ لوگ جو دوسرے ملکوں سے آ کر پہلی مرتبہ پاکستان میں حکومتی اقتدار سے وابستہ ہوئے تھے انہوں نے وزیراعظم اور پارٹی کارکنوں میں پل بننے کی بجائے وزیراعظم عمران خان کو ایسے مشورے دیے، جن سے بحرانوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ ان غیر سیاسی لوگوں نے کئی موقعوں پر ایسا غیر پارلیمانی اور غیر شائستہ اسلوب اختیار کیا، جس سے سیاسی اختلافات مزید بھڑکے اور ملک میں استحکام نہ آ سکا، ''ایک تو عمران خان اپنے مخالفین کے حوالے سے شروع سے ہی جارحانہ طرزعمل کے عادی تھے لیکن ان کے 'شعلہ بیان‘ مشیروں کے مشوروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سید ارشاد احمد عارف اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ان کے بقول ایسے مشیر تو پچھلے تین سالوں سے کام کر رہے ہیں اب ان پر اعتراض کرکے ان لوگوں کا پارٹی چھوڑنا فہم سے بالاتر ہے،''جو ایسے مشیروں کو قبول کرکے پارٹی عہدوں پر سالہا سال بیٹھے رہے۔ اب ان کا تنقید کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘

سردار عثمان بزدار کی وزارت اعلی

روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے گروپ ایڈیٹر سید ارشاد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلی بنانا عمران خان کی ایک بڑی غلطی تھی۔ ان کے مطابق انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جس کے پاس اس اسائنمنٹ کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ فاروق حمید بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں کئی گروپ عثمان بزدار کی تقرری کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ لیکن انہوں نے اپنی مخالفت کا زوردار اظہار بعد میں کیا۔


کئی دوسرے تجزیہ نگاروں کے بقول ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ عثمان بزدار کی جگہ پر وزیراعلی بنانے کے لیے، جس کا نام بھی آتا اسے نیب پکڑ کر لے جاتی۔ صوبائی وزراء سبطین خان اور علیم خان اس کی دو مثالیں ہیں۔ یہ تاثر بھی عام رہا کہ عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے ایک طاقتور جگہ سے آنے والی تجویز کو بھی عمران خان نے شرف قبولیت نہ بخشا۔ عثمان بزدار کا سابق وزیراعلی شہباز شریف سے موازنہ کر کے پی ٹی آئی کے مخالفین پوائنٹ سکورنگ کرتے رہے۔

میڈیا کی مخالفت

فاروق حمید کے مطابق عمران حکومت نے میڈیا کے ایک موثر حصے کو اپنے رویے کی وجہ سے اپنا مخالف بنا لیا۔ میڈیا کا یہ حصہ زیادہ طاقتور تھا سو اس نے عمران خان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے اور اسے پوری طاقت سے ہائی لائٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا زیادہ تر مخالفین کی خبر لینے میں مصروف رہا۔ اس لیے عمران حکومت کے اچھے کاموں کی تشہیر اس طرح سے نہیں ہو سکی جیسے ہونی چاہیے تھی، ''پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے دس بڑے ہسپتالوں کی تعمیر کا کام شروع کروا رکھا تھا لیکن یہاں شاید ہی کسی عام آدمی کو معلوم ہو کہ یہاں ہیلتھ سیکٹر میں یہ کام ہو رہے ہیں۔‘‘


مخالفانہ رائے ظاہر کرنے والے صحافیوں کی کردارکشی نے بھی پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا اور لگتا یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس صورتحال کا درست ادراک نہیں کر سکے۔

بلند بانگ دعوے اور غیر حقیقی وعدے

ایک قومی روزنامے میں کالم لکھنے والے ممتاز تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیاست میں حالات تیزی سے بدلتے ہیں آپ اگر اپنے ڈاکٹرائن پر کم وقت میں موثر طریقے سے عمل نہ کر سکیں تو پھر ان وعدوں کو پورا کرنا آسان نہیں رہتا۔ عمران خان کی طرف سے نوے دن میں کرپشن ختم کرنے کا وعدہ یا پھر آئی ایم ایف سے دوری اختیار کرنےکی بات یا پھر قانون کی مثالی حکمرانی کے دعوے ایسے ہیں جن کو لوگ پسند تو کرتے تھے لیکن جب حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی اور اس کی تپش عام آدمی کے گھر تک پہنچنا شروع ہو گئی تو پھر بہت سے لوگ اپوزیشن سے مل کر حکومتی وعدوں کا حساب مانگنے کی طرف آ گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔