يورپی يونين سے ملک بدريوں ميں تيزی کا امکان

يورپی يونين کے وزرائے داخلہ نے اسٹاک ہوم ميں منعقدہ اجلاس ميں اس بات پر اتفاق کيا ہے کہ ملک بدری کے عمل کو زيادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>

تصویر بشکریہ آئی اے این ایس

user

Dw

يورپی يونين کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ نے جمعرات کو اس بات پر اتفاق کيا ہے کہ غير قانونی راستوں سے يورپ آنے والے تارکين وطن کی ملک بدری کے عمل کو زيادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ يہ پيش رفت سويڈن کی ميزبانی ميں اسٹاک ہوم ميں آج منعقدہ اجلاس ميں سامنے آئی۔ يورپی بلاک کی صدارت کے حامل ملک سويڈن کی وزير داخلہ ماريہ مالمر اشٹينرگارڈ کے بقول اس وقت ملک بدری کا عمل غير موثر ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سن 2021 ميں تین لاکھ چالیس ہزار تارکين وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کيے گئے تھے مگر عملدرآمد صرف اکيس فيصد پر ہو سکا۔ يورپی يونين کے داخلی امور کی کمشنر يولوا يوہانسن نے اس بارے ميں کہا کہ ملک بدريوں کی موجودہ رفتار بہت سست ہے، ''اس ضمن میں کافی بہتری کی گنجائش ہے۔ ملک بدر کيے جانے والوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے اور عمل کو زيادہ موثر بنايا جا سکتا ہے۔‘‘


چند رياستوں کے وزراء نے يہ تجويز بھی دی ہے کہ جو آبائی ممالک ملک بدری کے عمل ميں تعاون نہيں کر رہے، ان کے شہریوں کے ليے ويزے کے حصول کا عمل محدود کيا جائے۔ سويڈش حکومت کا ايسا ماننا ہے کہ اس سلسلے ميں آبائی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزير داخلہ ماريہ مالمر اشٹينرگارڈ نے کہا کہ يورپی حکومتوں کو اپنے اختيارات کا استعمال کرتے ہوئے تارکين وطن کے آبائی ممالک پر زور ڈالنا چاہيے کہ وہ تعاون کريں۔ ان کے بقول ترقياتی امداد وغيرہ جيسی چيزوں کو تعاون سے جوڑا جا سکتا ہے۔

يورپی يونين کی جانب سے ان ممالک ميں 'ری انٹيگريشن‘ کے کئی امدادی پروگرام چلائے جاتے ہيں، جہاں کی حکومتوں نے ملک بدری کے عمل ميں تعاون کا مظاہرہ کيا ہوتا ہے۔ سن 2020 سے ايسا نظام بھی موجود ہے، جس کے تحت يورپ ميں ملک بدری کے مستحق قرار ديے جانے والے افراد کے آبائی ممالک اگر انہيں سفری دستاويزات فراہم نہ کريں يا انہيں واپس لينے کے ليے تيار نہ ہوں، تو ايسے ملکوں کے شہريوں کے ليے ويزے کا حصول مشکل بنایا جا سکتا ہے۔


يورپی کميشن نے سن 2021 ميں تجويز پيش کی تھی کہ يہ نظام بنگلہ ديش اور عراق پر بھی لاگو کيا جائے مگر فی الحال اس سلسلے ميں کوئی پيش رفت سامنے نہيں آئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔