چین کی نگاہیں جرمن صنعتی ماڈل پر
دنیا بھر میں جرمنی کی صنعتی ترقی میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعت کا کرادار بے مثال رہا ہے۔ ان کمپنیوں کو ’ہِڈن چیمپیئن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں بیرونی دنیا اور خاص طور پر چینی مسابقت کا سامنا ہے۔
چھوٹے اور درمیانے حجم کی کمپنیوں کو جرمن معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں اتنی مشہور بھی نہیں جیسا کہ بوش یا سیمنس ہیں۔ لیکن یہ چھوٹی اور درمیانی سائز کی کمپنیاں بھی خاندانی کاروبار کی حامل ہیں۔ ان میں کرونز، ویباسٹو اور وائنگ وغیرہ شامل ہیں۔ انہی کمپنیوں کی محنتِ شاقہ کی بدولت دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن اقتصادی طور پر کھڑا ہو سکا اور ترقی یافتہ اقوام میں شریک ہونے کے قابل ہوا۔
چھپے رستم
دنیا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں جرمنی کی صرف اٹھائیس کمپنیاں ہیں لیکن صنعت سے جڑی چھوٹی کمپنیوں میں جرمن کمپنیوں کا حصہ عالمی سطح پر اڑتالیس فیصد ہے۔ جرمنی میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنیاں قریب ننانوے فیصد ہیں اور ان میں سارے ملک کے ستر فیصد ملازمین کام کرتے ہیں۔ نوے فیصد اپرینٹس یا نئے ہنرمند افراد بھی ینہی سے بڑی مارکیٹ میں پہنچتے ہیں۔
مقامی معاشی مبصرین ان جرمن کمپنیوں کو ملکی اقتصادیات کے چھپے چیمپیئن یا "Hidden Champions" قرار دیتے ہیں۔ یہ اصطلاح کاروباری مشاورت فراہم کرنے والے انٹرنیشنل ادارے سیمن کشنر اینڈ پارٹنرز کے بانی ہیرمان سیمن نے پیش کی تھی۔ خفیہ چیمپیئن کے دائرے میں داخل سب سے زیادہ کمپنیاں جرمن ہیں۔
سیمن کے مطابق دنیا بھر میں سن 1995 تک جرمنی کی چار سو ستاون کمپنیاں چھپی یا ہِڈن چیمپیئنز کے دائرے میں آتی تھیں اور ان کے مال کی سالانہ خرید پچانوے ملین یورو کے مساوی تھی۔ مجموعی طور پر دنیا کی تین ہزار چار سو چھ ہِڈن چیمپیئنز میں جرمنی کا حصہ چھیالیس فیصد سے زائد ہے۔ یہ اعداد و شمار سیمن کشنر اینڈ پارٹنرز سے حاصل کیے گئے ہیں۔
چین اس میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش میں
جرمنی اور چین کے درمیان کاروباری فرق کے تناظر میں یہ اہم ہے کہ اس وقت ساٹھ فیصد جرمن ہِڈن چیمپیئن کمپنیوں کا بنیادی ضرورت کا مال چین میں تیار کیا جاتا ہے۔ چین میں جرمن فیکٹریوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے۔ اس کے مقابلے میں جرمنی میں صرف چار کمپنیاں کاروبار چلا رہی ہیں۔
سیمن کشنر اینڈ پارٹنرز کا خیال ہے کہ عالمی منڈی میں جرمن کمپنیوں کی ابھی تک بڑی موجودگی کی وجہ ان کے برانڈ اور معیار ہیں لیکن مستقبل میں وہی کمپنی آگے بڑھے گی جو اختراع کے پہلو کو مدِنظر رکھے گی جیسے کہ ڈیجیٹلائزیشن ہے۔فائیو جی، کوانٹم کمیونیکیشنز اور ریل ٹریک میں سبقت لے جا چُکا ہے
دنیا بھر میں سب سے بڑا پیداواری ملک چین ہے اور سن 2020 میں اس کی انڈسٹری کا حجم اکتیس ٹریلین سے بھی زیادہ ہے۔ اب یہ ملک فائیو جی، کوانٹم کمیونیکیشنز اور ریل ٹریک میں سبقت لے جا چُکا ہے۔ ابھی تک انتہائی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی پروڈکشن میں چین کا مقام دوسرا ہے۔ چین سے جرمنی کو بے شمار قیمتی اور اعلیٰ معیار کی صنعتی سامان کی ایکسپورٹ کی جاتی ہے، اس میں مشینری، دوا سازی میں استعمال ہونے والا سامان اور موٹر گاڑیوں کے پرزے خاص طور پر شامل ہیں۔
بیجنگ کا اگلا قدم
رواں برس جون میں چین کی نصف درجن وزارتوں نے ملکی صنعتی شعبے کے لیے رہنما اصول جاری کیے۔ ان کے مطابق سن 2025 تک سارے چین میں دس ہزار چھوٹی مگر انتہائی اہم صنعتی یونٹس کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور یہ صنعتی یونٹس کئی اہم نوعیت کی ٹیکنالوجی میں مہارت رکھیں گے۔ ان کے علاوہ ایک ہزار ہِڈن چیمپیئنز بھی قائم کیے جائیں گے جو دنیا میں اسی قدر و منزلت کے حامل ہوں گے جیسے کہ جرمن کمپنیاں ہیں۔
بیجنگ اکنامک آپریشن ایسوسی ایشن کے نائب ڈائریکٹر تیان یُن کے مطابق چین مختلف صنعتوں کے حوالے سے اہم نوعیت کا تجربہ رکھتا ہے اور اب اس کے استعمال کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس کی ایک مثال فون ساز کمپنی ہواوے کے لیے کئی حساس نوعیت کے پرزوں کی پروڈکشن ہے۔
تیان یُن کے مطابق اب چین کو چودہویں پانچ سالہ منصوبے (2021-25) میں صنتی پروڈکشن کی سیڑھی پر مزید اونچا چڑھنا ہے۔ مبصرین کے مطابق چین کی یہ کوشش واضح ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مسابقتی عمل کو مزید تقویت دینا چاہتا ہے اور وہ ہِڈن چیمپیئنز کی ایک بڑی قطار اپنے ملک میں لگانے کی کوشش میں ہے۔
تفریق ختم ہوتی ہوئی
اس ساری بحث سے ایک بات تو سامنے آئی ہے کہ کئی جرمن مصنوعات کسی حد تک چینی پرزوں سے جوڑی جاتی ہیں لیکن یہ جرمن پراڈکٹس کہلاتی ہیں۔ اب مستقبل میں یہ ممکن ہوتا دکھائی دے رہا ہے گا کہ چین ہی دنیا میں جرمن مصنوعات کا متبادل بن کر رہ جائے گا۔
جرمنی سے چین کو ایک سو بلین یورو کے سامان کی ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔ یہ تمام یورپی یونین کا نصف ہے۔ دوسری جانب جرمن مارکیٹ چین سے زیادہ سامان امپورٹ کرتی ہے بمقابلہ ایکسپورٹ کے۔ ایک جرمن ادارے سیمسن اے جی کے چیف ایگزیکٹو اندریاس ویڈال کا کہنا ہے کہ جرمن پراڈکٹس بہت معیاری ضرور ہیں لیکن چین کے پاس بھی بہت ماہر انجینیئرز موجود ہیں جو کم قیمت سے معیاری مصنوعات تیار کر کے انہیں عالمی منڈی میں لانے کے اہل ہیں۔
سکیورٹی ٹیکنالوجی میں اے شُمرزال کو نہایت معتبر مقام حاصل ہے اور ان کے جرمن شہر ووپرٹال میں قائم پلانٹ جیسا ایک اور پلانٹ چین میں بھی کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کے مینیجنگ ڈاٗریکٹر مائیکل ایمبروز کا کہنا ہے کہ ان کی پراڈکٹ پر 'میڈ ان جرمنی‘ یا 'میڈ ان چین‘ نہیں لکھا جاتا بلکہ صرف ' میڈ بائے شُمرزال‘ درج ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔