بچہ چوری کی افواہ سے یو پی پریشان، بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے سرپرست خوفزدہ
اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ میں بچہ چوری کی افواہیں لگاتار عروج پر ہیں، بچہ چوری کے الزام میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے۔
گلفشاں (31 سال) اپنے شوہر نوشاد سے بیٹی صفیہ کو ٹیوشن بھیجنے کے لیے منع کر رہی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ بچہ چوروں کا گروہ سرگرم ہے۔ صفیہ 10 سال کی ہے اور وہ مظفر نگر میں رہتی ہے۔ سہارنپور کے ایک اسکول کے پرنسپل نے اپنے اسکول کے طلبا کے لیے ہدایت جاری کی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ سے آنے والے تنہا نہ آئیں، ان کے اہل خانہ میں سے ایک رکن ان کے ساتھ آنا یقینی کیا جائے۔ اسی ہفتہ یوپی اور اتراکھنڈ کی سرحد سے ملحق چھپار گاؤں میں 21 سال کے شاہ رخ کا گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ قتل بچہ چوری کی افواہ کے سبب ہوا۔ مزدوری کر کے اپنے گھر لوٹ رہے شاہ رخ کو غلط فہمی میں بچہ چور سمجھ کر گولی مار دی گئی۔
اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ میں بچہ چوری کی افواہیں لگاتار عروج پر ہیں۔ بچہ چوری کے الزام میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے۔ حالات اتنے سنگین ہو گئے ہیں کہ پولیس سڑکوں پر اعلان کر افواہوں سے بچنے کے لیے الرٹ کر رہی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر مغربی اتر پردیش میں دکھائی دیتا ہے جہاں کچھ اہل خانہ نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا تک بند کر دیا ہے۔ میرٹھ کے شاستری نگر علاقے کی مدھو شرما کہتی ہیں کہ پورے دن خواتین میں بس یہی ایک بحث جاری ہے۔ پڑوس کی نیلو آج بتا رہی تھی کہ آج 3 بچے اٹھا لیے گئے ہیں۔ اس نے واٹس ایپ پر دیکھا ہے۔ واٹس ایپ نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔
اس حالت میں علاقے میں گھومنے والے معذور اور بھکاریوں کو شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ بچے انھیں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں اور دوڑ کر گھر میں گھس جاتے ہیں۔ دہلی سے ملحق دادری کی انجو بتاتی ہیں کہ خوف کی وہج سے اس کی 7 سال کی بیٹی 3 دن سے گھر سے باہر کھیلنے نہیں گئی ہے۔ اس کے پاپا اسے اسکول چھوڑنے جاتے ہیں اور وہی لینے جا رہے ہیں۔ ڈر کے اس ماحول کو بنانے میں سوشل میڈیا کا بہت منفی کردار ہے۔ افواہوں کے سبب بھیڑ نے کچھ پھیری والے انجان لوگوں کے ساتھ مار پیٹ بھی کی ہے۔ دہرادون میں پھیری لگا کر جیکٹ فروخت کرنے والے شاکر منصوری بتاتے ہیں کہ وہ پہاڑوں پر پھیری لگا کر جیکٹ فروخت کرتا ہے۔ اب اپنا آدھار کارڈ گلے میں ٹانگ کر گھوم رہا ہے کیونکہ اسے خوف ہے کہ کوئی بچہ چور بتا کر افواہ نہ پھیلا دے۔ شاکر کا یہ خوف اس لیے بھی ہے کیونکہ اس کے پڑوس کے پھیری والے نوجوان زاہد کو تین سال قبل تریپورہ میں بچہ چوری کی افواہ کے بعد بھیڑ نے تھانے میں گھس کر پیٹ پیٹ کر مار دیا تھا۔ زاہد جانسٹھ کے پاس سنبھل ہیڑا گاؤں کا رہنے والا تھا۔
اب پولیس لگاتار لوگوں سے اپیل کر رہی ہے کہ افواہ نہ پھیلائیں اور نہ ہی ایسی افواہوں پر دھیان دیں۔ لوگوں سے کوئی بھی اطلاع ملنے پر فوراً 112 پر کال کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ کمیونٹی پولیسنگ کے تحت تیار سی پلان ایپ کے ذریعہ سے لوگوں کو افواہوں پر دھیان نہ دینے کا پیغام بھی بھیجا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی افواہوں پر فوری تردید کی جا رہی ہے۔ سہارنپور کے ڈی آئی جی سدھیر کمار سنگھ کہتے ہیں کہ بچہ چوری کی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اب تک کوئی گروہ ہماری جانکاری میں نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جو بھی افواہ ہے ان میں کوئی سچائی نہیں۔ کچھ واقعات بہت پرانے ہیں، جنھیں ابھی سے جوڑ کر خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر افواہ پھیلانے والوں پر سخت نظر رکھ رہے ہیں۔ کچھ مقامات پر غلط فہمی میں مار پیٹ کے واقعات پیش آئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان افواہوں کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟ یقینی طور پر یہ پیٹرن خطرناک ہے۔ ملک بھر میں اس کے کافی منفی نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ میرٹھ میں آئی جی پروین کمار ان سبھی افواہوں کو پوری طرح جھوٹا بتاتے ہیں۔ حالانکہ وہ سازش سے انکار نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ تین سال پہلے بھی اسی طرح کی افواہ پھیلائی گئی تھی۔ ہم تلاش کر رہے ہیں کہ اس کی بنیاد کہاں سے جڑی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے پھیلائی جا رہی ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں۔ جو بھی خبر ملتی ہے پولیس سرگرمی دکھاتی ہے، لیکن اطلاع جھوٹی ہی نکلتی ہے۔ ہم افواہوں کے پھیلانے والے نظام کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کریں گے۔ یہ پوری طرح ورغلانے والی خبریں ہیں۔ افواہ واٹس ایپ کے ذریعہ سے زیادہ پھیلائے جانے کی بات سامنے آئی ہے۔
بچہ چوری کی افواہیں اب مغربی اتر پردیش تک محدود نہیں ہیں۔ اس کی سنگینی اور پیٹرن کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ دیوبند میں 7 ستمبر کو 21 سال کا شاہ رخ مزدوری کر کے گھر لوٹ رہا تھا تو اسے بچہ چور سمجھ کر دھرم پال اور اوم پال نے گولی مار دی۔ یہاں سے 700 کلومیٹر دور کوشامبی میں بچہ چوری کی افواہ پر خاتون کو عریاں کر دیا گیا۔ مراد آباد کے بھوجپور میں دو لوگوں کو گھیر کر پیٹا گیا۔ سیتاپور میں 65 سالہ بزرگ خاتون کی پٹائی کی گئی۔ ہردوئی میں پھیری والے نوجوان کو ہینڈ پمپ سے باندھ کر پیٹا اور کاسگنج میں چار ریلائنس کے ملازمین کی پٹائی ہوئی۔ صرف 7 دن میں اتر پردیش میں 30 ایسے واقعات سننے کو ملے۔
واٹس ایپ کے علاوہ ان جھوٹے حادثات کی افواہ پھیلانے میں انسٹاگرام اور یوٹیوب پر بنائی ریل کا بڑا تعاون ہے۔ یہی ایک بات ہے جو سازش کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر دو منٹ سے بھی کم وقت کی کچھ ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں بچوں کی کڈنی نکال کر فروخت کرنے کی کہانی دکھائی گئی ہے۔ بیداری کی کمی کے سبب کچھ خواتین اسے سچ مان لیتی ہیں۔ آج کل بچے موبائل میں خود بھی ایسی ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں اور دوسروں کو شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ افواہ بچوں سے بچوں میں پھیل رہی ہے۔
گھریلو خاتون مہوش بتاتی ہیں کہ ان کی 6 سال کی بیٹی آسیہ نے انھیں خود بچہ چوری ہونے والی بات بتائی۔ ایسی ویڈیو اس نے یوٹیوب پر دیکھی تھی۔ اس کے بعد اس نے وہ ویڈیو مجھے دکھائی۔ اس ویڈیو میں ایک گروپ بچوں کا اغوا کر ان کی کڈنی فروخت کرنے کی بات کر رہا تھا جو پہلی نظر میں ہی بناوٹی معلوم پڑ رہا تھا۔ لیکن معصوم بچے اور کم بیدار دیہی خواتین اسے سچ مان لیں گی۔ افواہوں کے پیچھے یوٹیوب پر زیادہ ویوز حاصل کرنے کی طلب دکھائی پڑتی ہے۔ نیا مواد دینے کی کوشش میں یہ سماج کو برباد کر رہے ہیں، یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ افواہوں کو پھیلانے والا نظام اسی طرح کی ویڈیوز خود بنوا رہا ہو۔
(نوٹ: سبھی تصاویر وائرل جھوٹی ویڈیوز کے اسکرین شاٹ ہیں جنھیں سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔