سوچی کی لب کشائی اور مسئلہ روہنگیا
میانمار کی اسٹیٹ کونسلر اور نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے بالآخر اپنے ہونٹوں پر لگا خاموشی کا قفل توڑ دیا۔ لیکن روہنگیا قضیہ پر انھوں نے جو کچھ کہا وہ انسانی برادری کو قابل قبول نہیں ہے۔ اس سے بہتر تو یہی تھا کہ وہ خاموش ہی رہتیں۔ فارسی کی کہاوت ہے کہ جب تک آدمی بولتا نہیں ہے اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔ یہی حال محترمہ سوچی کا ہے۔ حالانکہ ان کی خاموشی مسلسل یہ چغلی کھا رہی تھی کہ ان کے دل کے کسی گوشے میں بھی روہنگیا مسلمانوں کے لیے ہمدردی کی رمق نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنی اٹھارہ ماہ پرانی حکومت کو بچانے کے لیے سیکورٹی فورسز کے مظالم کی حامی ہیں۔ جب پوری دنیا سے ان پر تنقید ہونے لگی اور ان پر مظالم بند کروانے کا دباؤ بڑھنے لگا اور اسی درمیان اقوام متحدہ کا اجلاس منعقد ہوا تو انھوں نے اپنی زبان کھولی۔ انھوں نے کہا کہ وہ پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اسے انھوں نے دستاویزات سے مشروط کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ اپنے دستاویزات پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے انھیں ہم واپس لے لیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نصف سے زائد آبادی جوں کی توں ہے اور ان کے گھروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ جب میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری نہیں مانتی تو وہ بیچارے اپنی شہریت کا ثبوت کہاں سے پیش کریں گے۔ اور اگر ان کے کسی دستاویز کو وہاں کی حکومت مان بھی لے تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے بنگلہ دیش کی طرف کوچ کرنے والے تمام متاثرین اپنےدستاویزات بھی ساتھ لے کر گئے ہوں گے۔ جب ان لوگوں کے گاؤں کے گاؤں نذر آتش کر دیے گئے اور ان کے پاس سامان زندگی کے نام پر محض کچھ کپڑے اور کچھ برتن ہیں تو ان کے پاس شہریت کا ثبوت کہاں سے آئے گا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کو حکومت کی جانب سے 1995 میں رہائش کے جو عارضی کاغذات جاری کیے گئے تھے ان کو 2015 میں منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں تو وہ یہ کاغذ بھی پیش نہیں کر سکتے۔ میانمار میں جو 135 نسلی گروپ ہیں ان میں روہنگیا کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ حکومت ان کو اپنا شہری مانتی ہی نہیں۔ لہٰذا 1982 میں شہریت کا جو ایکٹ وضع کیا گیا اس کے تحت روہنگیا کے لیے وہاں کی شہریت حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ایسے میں سوچی کی اس یقین دہانی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ جو لوگ ویری فکیشن میں کامیاب ہو جائیں گے ان کو واپس لے لیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ انھوں نے کہا کہ نصف سے زائد آبادیاںمحفوظ ہیں۔ یعنی نصف آبادیاں تباہ کر دی گئی ہیں۔ کیا نصف آبادی کا محفوظ رہنا نصف کی تباہی کا جواز پیش کر سکتا ہے۔
آنگ سان سوچی نے اپنے خطاب میں بہت کھل کر عالمی برادری کو للکارا بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ عالمی دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گی۔ ان پر عالمی تنقیدو کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ گویا انھوں نے عالمی برادری کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو میانمار پر پابندی عاید کر سکتی ہے۔ ان کو کوئی پروا نہیں ہے۔ شاید وہ یہ سمجھتی ہیں کہ نہ تو اقوام متحدہ ان کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک۔ حالانکہ برطانیہ نے میانمار کی افواج کو ٹریننگ دینے کا سلسلہ ملتوی کر دیا ہے لیکن میانمار کے خلاف کیا کوئی کارروائی ممکن ہے اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ کسی دوسری قوم کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان تو پوری دنیا میں مارے کاٹے جا رہے ہیں۔ ان کے حق میں کچھ آوازیں بلند ہوتی ہیں اور پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ دنیا میں 56 مسلم ممالک ہیں جب ان کا ضمیر بیدار نہیں ہوتا اور انھیں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کی نسل کشی سے کوئی رنج نہیں پہنچتا تو پھر غیروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کروائیں۔ حالانکہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے جنیوہ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اجلاس چل رہا ہے لیکن اس کی امید کم ہے کہ میانمار کسی نرمی کا مظاہرہ کرے گا یا اگر اس کے خلاف کوئی قرارداد منظور کی جاتی ہے تو وہ اس کا احترام کرے گا۔ آنگ سان سوچی نے اس اجلاس میں عدم شرکت کے فیصلے سے یہ اشارہ دے دیا کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔
اب یہاں کچھ باتیں حکومت ہند کے تعلق سے۔ ہندوستان اجلاس میں شرکت کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل رکن راجیو کے چندرا نے ہندوستان کا موقف پیش کرتے ہوئے رخائن صوبے کے تنازعے کو صبر و تحمل اور سوجھ بوجھ سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے بنگلہ دیش کی ستائش کی اور کہا کہ وہاں کی حکومت نے متاثرین کے لیے جو رول ادا کیا ہے اس کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس موقع پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے ملاقات بھی کی۔ لیکن خبروں کے مطابق ان دونوں میں روہنگیا کے مسئلے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ راجیو چندرا نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر اظہار افسوس کیا اور اس مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے پر زور دیا۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں کہا کہ میانمار کی حکومت ترک وطن کرنے پر مجبور روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے۔ بلکہ اس کے برخلاف انھوں نے اراکان سالویشن آرمی کے مبینہ دہشت گردانہ حملوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ان حملوں کے نتیجے میں ہی تشدد پھوٹ پڑا ہے۔ خیال رہے کہ رپورٹوں کے مطابق روہنگیا سالویشن آرمی نے 25 اگست کو تیس پولس چوکیوں پر حملے کیے تھے جن میں 13 سیکورٹی جوان ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن یہ حملے کیوں کیے گئے اس بارے میں میڈیا نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ در اصل روہنگیا مسلمانوں پر ایک طویل عرصے سے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تب اراکان سالویشن آرمی نے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھائے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابھی تک کسی بھی عالمی ادارے نے اس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا ہے۔ لہٰذا اس کے حملوں کو حق خود حفاظت کے تحت کیا جانے والا حملہ تصور کیا جانا چاہیے نہ کہ دہشت گردانہ حملہ۔
ہندوستان نے اقوام متحدہ میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر اظہار ہمدردی تو کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ ان کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ اور آئی ایس آئی سے بعض روہنگیا کے روابط ہیں۔ لیکن وہ اسے ابھی تک ثابت نہیں کر سکی ہے۔ جموں میں برسوں سے روہنگیا رہ رہے ہیں، دہلی میں ہیں، حیدرآباد میں ہیں، ہریانہ میں ہیں اور دوسری جگہوں پر بھی ہیں۔ لیکن کہیں بھی ان کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ابھی تک نہیں ملا ہے۔ اس کے باوجود حکومت انھیں سیکورٹی کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہے۔ اس معاملے میں میڈیا کا رول بھی کوئی بہت اچھا نہیں ہے۔ بعض نیوز چینل یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ روہنگیا کے روابط دہشت گرد جماعتوں سے ہیں۔ حکومت نے عدالت عظمیٰ میں کہا ہے کہ وہ تین اکتوبر کو وہ خفیہ رپورٹیں سربہ مہر لفافے میں پیش کرے گی جن میں روہنگیا کی موجودگی کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے ابھی حال ہی میں جب میانمار کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے وہاں مبینہ دہشت گردی پر اظہار تشویش کیا تھا لیکن لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی بدحالی پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ در اصل ان پناہ گزینوں کے بارے میں حکومت کا یہ موقف محض اس وجہ سے ہے کہ یہ تمام لوگ، کچھ ہندوؤں کو چھوڑ کر، مسلمان ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ یہ اعلان تو کرے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے اگر ستائے ہوئے ہندو یہاں آتے ہیں تو ہم ان کو پناہ دیں گے۔ لیکن وہ یہی اعلان ستائے ہوئے مسلمانوں کے بارے میں نہ کرے۔ آج جہاں آنگ سان سوچی کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے وہیں حکومت ہند کو بھی نظر ثانی کرنے اور اس مسئلے پر انسانی بنیادوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔