آئنسٹائن، ایک حیرت انگیز شخصیت .. پارٹ اول
بہت کم عمری سے آئنسٹائن نے ریاضیات اور فزکس میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ صرف ایک گرمی کی تعطیلات میں انہوں نے الجبرا اور جیومیٹری خود سے سیکھی۔
پچھلے 100 سالوں میں البرٹ آئنسٹائن کی زندگی اور اس کے تحقیقاتی مقولوں پر انگریزی کے علاوہ اور زبانوں میں بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن اردو میں بہت کم مواد مہیا ہے۔ اس کے تحقیقاتی کاموں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال کا نوبل انعام بھی تین امریکی سائنسدانوں کو اس کی گریویٹیشنل کشش کی لہروں کی پیشن گوئی کے تجرباتی ثبوتوں پر ہی ملی تھے۔ آئنسٹائن کا شمار نیوٹن اور گیلیلیو جیسے عظیم سائنسدانوں کی فہرست میں ہوتا ہے۔ توانائی ، مقدار اور روشنی کی رفتار پر مبنی اس کا دیا ہوا مقولہ (E=mc2)دنیا کا مقبول ترین مقولہ ہے۔
اس مضمون میں آئنسٹائن کی زندگی سے متعلق کچھ ایسی باتوں کا ذکر ہوگا جو شاید کم لوگوں کو معلوم ہیں۔ ان باتوں کا ذکر اس لئے بھی ضروری ہے کہ پچھلے چند سالوں میں ہمارے ملک میں بدلے ہوئے حالات میں دانشوروں کا کیا رول ہونا چاہئے۔ دانشوروں کا کام حکومت وقت کی تعریف میں قصیدے پڑھنا نہیں بلکہ بہادری سے سچائی کی حفاظت کرنا اور نااتفاقی کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔
ملک کے بدلے ہوئے حالات میں اور جرمنی کے نازی ازم سے مشابہت خوفناک حد تک ہے۔ جب ملک سے محبت اور وفاداری کو سیاسی لیڈروں سے اندھے اعتماد کے پیمانے سے ناپا جانے لگے۔ جب حاکموں سے سوال پوچھنا ملک سے غداری سمجھا جائے تو وقت برا ہے اور خاموشی جرم ہے۔ تاریخ کو جھٹلا کر نہ صرف پرانے لیڈروں کو ذلیل کرنا عام ہو گیا بلکہ عام لوگوں میں مصنوعی دشمنی پیدا کر کے نفرت کی دیواروں کو کھڑا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
دانشوروں کے ایک بڑے طبقہ ، فوج کے بڑے ریٹائرڈ افسران اور بڑے سرکاری ملازمین نے اوپر بیان کئے گئے رجحانات کی پر زور مخالفت کی ہے ، لیکن سائنسی تحقیقات سے جڑے ہوئے دانشوروں کی آواز بہت کمزور ہو رہی ہے۔
مسلمانوں پر ظلم ہو یا پسماندہ طبقات پر ، عیسائیوں پر یا پھر دلتوں پر اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ مسلمان ہوں ، دلت ہوں یا پھر عیسائی ہوں ، بس ایک بہتر انسان ہونا ہی کافی ہے۔ ان سب چیزوں کی طرف سے اگر آنکھ بند بھی کر لی جائے ، لیکن سائنس اور سائنسی سمجھ پر حملوں کو نظر انداز کب تک کیا جائے گا۔ کیا ہمارے دوست اب بھی چپ رہیں گے جب عالمی گرمی، نیوٹن کے مقولہ، ارتقاء کی سائنس، ہوائی جہاز کی ایجاد وغیرہ وغیرہ سب سڑکوں پر طے ہوں گی۔ بجائے اس کے کہ یہ فیصلہ یونیورسٹیوں میں ہونے والی سائنسی تحقیقات میں ہو۔
آئنسٹائن نے کس طرح جرمن فاشزم کی مخالفت کی، ہزاروں سائنسدانوں کو بچایا اور آخر میں امریکہ میں افریقی نسل کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس وجہ سے آئنسٹائن نہ صرف ایک عظیم سائنسداں تھے بلکہ عظیم انسان بھی تھے جنہوں نے اپنے اثر کو عالمی امن کی حمایت میں ہمیشہ بہادری سے استعمال کیا۔ نیچے بیان کی گئی آئنسٹائن کی زندگی یہ بتاتی ہے کہ سائنسی تحقیقات صرف ایک ملازمت نہیں بکہ سچ کی کھوج ہے اس لئے وہ ہمیشہ ناانصافیوں کے خلاف ہونے والی جد و جہد کا حصہ ہوگی۔ آئنسٹائن کی زندگی اس بات کی بہترین مثال ہے کہ عالمی امن کی جدو جہد کا حصہ ہو کر بھی بہترین سائنسی تحقیقات کی جا سکتی ہے۔
آئنسٹائن کی پیدائش 14 مارچ 1879 میں جرمنی کے شہر اُلم (Ulm) میں ہوئی تھی اور ان کے وال کا نام ہرمن آئنسٹائن تھا۔ آئنسٹائن کے والد ایک انجینئر تھے اور بجلی کا سامان بنانے والی فیکٹری کے مالک تھے۔ آئنسٹائن ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے لیکن ان کے گھر میں کسی کو بھی مذہب سے لگاؤ نہیں تھا۔
پانچ سال کی عمر میں ان کا داخلہ میونخ شہر ’‘کیتھلک ایلیمنٹری اسکول‘ میں ہوا جہاں وہ 3 سال تک رہے اس کے بعد آگے کی پڑھائی کے لئے 7 سال تک ’لوٹفولڈ جمنیزیم ‘ میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے جرمنی چھوڑ دیا۔ ان کے والدین یہ چاہتے تھے کہ وہ ایک الیکٹریکل انجینئر بنیں لیکن اسکول کی سختیوں کی وجہ سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور 15 سال کی عمر میں میونخ چھوڑ کر اٹلی کے شہر پاویا آ گئے۔ اس بیچ انہوں نے اپنا پہلا تحقیقاتی مقالہ ’مقناطیسی فیلڈ میں ایتھر کی صورت حال‘پیش کیا۔
بہت کم عمری سے آئنسٹائن نے ریاضیات اور فزکس میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ صرف ایک گرمی کی تعطیلات میں انہوں نے الجبرا اور جیومیٹری خود سے سیکھی۔
انہوں نے 12 سال کی عمر میں پاتھوگورس تھیورم کا ایک نیا ثبوت حاصل کیا۔ ان کے استاد میکس ٹالمنڈ کا یہ کہنا تھا کہ ریاضیات کی وہ چیزیں جو خود ان کے لئے مشکل تھیں آئنسٹائن آسانی سے حل کرتے تھے اور 14 سال کی عمر تک انہوں نے خود سے کیلکولس (ڈفرینشیل انٹیگرل) میں مہارت حاصل کر لی۔
فوج کی ضروری ٹریننگ سے بچنے کے لئے انہوں نے جرمن شہریت چھوڑ دی کیوں کہ ان کو شروع سے ہی جنگوں اور فوج سے نفرت تھی۔ سال 1896 میں سوئزرلیند کے ایک اسکول سے انہوں نے اپنی سیکنڈری تعلیم مکمل کی جس میں ریاضیات اور فزکس میں ان کو امتیازی نمبر ملے۔ 17 سال کی عمر میں فزکس اور ریاضی کے ٹیچر ٹریننگ کے ایک 4 سالہ کورس میں زیورخ میں داخلہ لیا ۔ پڑھائی کے دوران ان کی ملاقات ایک 20 سالہ سربین خاتون میلیوا میرک سے ہوئی جو اسی کورس کی پڑھائی کر رہی تھیں ان دونوں میں بہت دوستی ہو گئی جوکےبعد میں محبت میں تبدیل ہو گئی اور انہوں نے 1903 میں شادی کر لی۔ آئنسٹائن کا پہلا بیٹا لیزرل 1904 میں اور دوسرا بیٹا ہینو 1910 میں پیدا ہوا۔
آئنسٹائن 1904 میں برلن چلے گئے اور 5 سال میلویا سے علیحدہ رہنے کے بعد 1919 میں ان کی طلاق ہو گئی اور اسی سال انہوں نے اپنی نزدیکی رشتہ دارایلسا لوینتھل سے دوسری شادی کر لی۔ آئنسٹائن کے کئی نزدیکی دوست تھے جن سے وہ فزکس کے مختلف ایشوز پر بحث و مباحثہ اور بات چیت کے ذریعے مستقل رابطہ میں رہتے تھے۔
سال 1900 میں ٹیچر بننے کے کورس کو مکمل کرنے کے بعدآئنسٹائن 2 سال تک نوکری کی تلاش میں کافی پریشان رہے ۔ آخر میں ان کے دوست کے والد کی سفارش پر سوئزرلینڈ کے برن شہر کے پیٹنٹ آفس میں انہیں معمولی سی نوکری مل گئی۔ پیٹنٹ آفس میں ان کا زیادہ تر کام بجلی کے سگنل سے متعلق نئی مشینوں کو دیکھنا اور ان کی اہمیت کا اندازہ لگا کر پیٹنٹ کی سفارش کرنا تھا۔ اس تجربہ کو انہوں نے بعد میں اپنے بہت سارے تجربوں میں استعمال کیا۔ روشنی کی حیرت انگیز خصوصیات اور اس کا تعلق خلا (space) اور وقت (time) سے ثابت کرنے کے تجربوں کی اہمیت پر غور و فکر اسی زمانہ میں شروع ہوئی تھی۔
اسی دوران 1902 میں انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ (دی اولمپیا) بنایا۔ اس گروپ میں زیادہ تر وقت فزکس کے مختلف ایشوز پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ مشہور سائنسدانوں کی نئی تحقیقات پر بھی بات چیت کی جاتی تھی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ آئنسٹائن کو فزکس میں ہونے والی تمام نئی باتوں سے واقفیت ہو جاتی تھی۔
سال 1900 میں ان کا پہلا تحقیقاتی مقالہ (ریسرچ پیپر) کیپی لری کے حوالہ سے فزکس کے رسالہ اینالین ڈیر فیزک میں شائع ہوا۔ انہوں نے 30 اپریل 1905 میں الفریڈ کلینر کی سرپرستی میں زیورخ یونیورسٹی سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
سال 1905 میں ہی (جو ایک کرشمائی سال کے نام سے مشہور ہے) انہوں نے 4 تحقیقاتی مقالے پیش کئے۔ ان میں سے سب سے پہلا فوٹو الیکٹریک افیکٹ پر، دوسرا براؤنین موشن پر، تیسرا اسپیشل رلیٹیوٹی اور اور چوتھا مقبول ترین توانائی اور مقدار والا مقالہ تھا۔ یہ مقالے پیش ہونے کے بعد سائنسی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا اور آئنسٹائن 26 سال کی عمر میں ہی ساری دنیا میں مشہور ہو گئے۔ ان میں سے ہر مقالہ کی اتنی اہمیت تھی کہ آئنسٹائن کو ہر ایک پرچہ پر ایک نوبل انعام مل سکتا تھا۔
سال 1908 تک آئنسٹائن کا شمار دنیا کے مشہور اور معروف سائنسدانوں میں ہونے لگا تھا۔
اگلے سال جب ان کے الیکٹروڈائینامک پر مبنی ایک لکچر کو مشہور سائنسداں الفریڈ کلینر نے سنا تو انہوں نے ان کو پہلے 1909 میں اسٹنٹ پروفیسر اور پھر 1911 میں پراگ یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر نوکری دلائی اور شہرت بھی حاصل کی۔ اس دوران آئنسٹائن نے کوانٹم قوانین سے ٹھوس کی خصوصیات پر اور رڈی ایشن (تابکاری) پر مقالے لکھے۔
سال 1912 میں وہ واپس زیورخ گئے اور یونیورسٹی میں تھیوریٹکل فزک کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وہاں پر بہت ساری اور چیزوں کے علاوہ گرمی کی مالیکیولر تھیوری اور اپنے دوست گروسمین کے ساتھ ملک کر گریویٹیشن کی تحقیقات میں لگے رہے۔ سال 1913 میں مشہور سائنسداں میکس پلینک اور والدر نرنسد ملنے آئے اور ان کو ایک نئے انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹرشپ فیلو کرنے پر راضی کر لیا۔ سال 1914 میں وہ برلن یونیورسٹی آگئے لیکن پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کی وجہ س وہ نیا انسٹی ٹیوٹ 1919 میں ہی بن پیایا اور آئنسٹائن کیسر ویلہیم کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور جرمن اکیڈمی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔
اگلے شمارے میں روشنی کے مڑنے کا حیرت انگیز تجربہ ، نوبل انعام، جرمنی میں فاشزم کا بڑھنا اور آئنسٹائن کی امن کے لئے جد و جہد اور امریکہ ہجرت کا ذکر ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔