مظفر نگر ریل حادثہ: ’یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے‘
ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ دو روز قبل ضلع مظفر نگر میں ہونے والے ٹرین حادثہ کا سبب کیا تھا۔ آج صبح کا اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ ایک شمالی ریلوے افسر کے حوالے سے لکھتا ہے ’’اس کا سبب یہ ہے کہ کھتولی اور آس پاس کے اسٹیشنوں کے عملے کے درمیان کسی قسم کا کوئی رابطہ تھا ہی نہیں۔ ہمارے مرمت کرنے والے عملے نے پٹری کا ایک چھوٹا سا حصہ مرمت کی غرض سے اس وقت ہٹا رکھا تھا جب کہ اُتکل ایکسپریس 100 کلو میٹر کی رفتار سے وہاں سے گزری۔ جس مقام پر یہ حادثہ ہوا وہاں سے کلیمپ اور ایسی دیگر اشیاء ملی ہیں کہ جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہاں مرمت کا کام ہو رہا تھا۔ اس بات کی اطلاع کھتولی (جہاں حادثہ ہوا) اسٹیشن کے افسران کو ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ان کو اس بات کی اطلاع ہی نہیں تھی۔‘‘
اب اس کا نتیجہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ آپ اس بات سے تو واقف ہیں کہ 32 افراد کی موت اس حادثہ میں ہوئی۔ لیکن ذرا غور فرمائیے کہ سوتے ہوئے وہ مسافر جن کو منٹوں میں موت کھا گئی، وہ کس بے دردی کی موت مرے ہوں گے۔ اس کا اندازہ آپ اس حادثہ کے ایک چشم دید گواہ پونم چودھری کے بیان سے لگا سکتے ہیں جو فرماتی ہیں ’’ہم اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ یکایک ایک کان پھاڑ دینے والے دھماکے کی آواز سنائی پڑی۔ اب جو ہم نے آنکھیں گھما کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہوا میں ایک ریل کا ڈبہ معلق ہے جو سیکنڈوں میں زمین پر آ رہا۔‘‘
خبروں کے مطابق کھتولی اسٹیشن کے آس پاس رہنے والے ہر فرد کو معلوم تھا کہ پٹری کی مرمت کا کام چل رہا ہے۔ لیکن اس کی اطلاع نہ تو کھتولی اسٹیشن ماسٹر کو تھی اور نہ ہی کسی اور اعلیٰ افسر کو تھی۔ ظاہر ہے کہ جب اسٹیشن ماسٹر کو ہی خبر نہیں تو پھر کسی قسم کی کوئی وارننگ ٹرین ڈرائیور کو کیسے دی جائے گی۔ وہاں تو ریل کی پٹری کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی مرمت کے لیے ہٹا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا انجام تو وہی ہونا تھا جو ہوا۔ 100 کلو میٹر سے زیادہ رفتار سے آنے والی اتکل ایکسپریس کے ڈبے ہوا میں اڑ گئے۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اندر مسافروں پر کیا بیتی ہوگی۔
اُدھر وزارت ریلوے کا اطمینان، اللہ کی پناہ! وزیر ریلوے سریش پربھو مع اعلیٰ افسران موقع واردات پر تو گئے، انھوں نے وہاں خود جائزہ بھی لیا۔ لیکن لوٹ کر حکم کیا جاری کیا وہ حیرت ناک ہے۔ ریلوے بورڈ کے ایک ممبر اور شمالی ریلوے کے جنرل منیجر کو بطور سزا ’چھٹی‘ پر بھیج دیا گیا۔ چونکیے مت۔ آپ نے غلط نہیں پڑھا۔ وہ ’چھٹی‘ پر ہی بھیج دیے گئے۔ ہاں، بطور خانہ پری چند جونیئر افسران کو بھی معطل کر دیا گیا۔
32 افراد کی موت کی سزا کام سے چھٹی! میں کسی کا قتل کر دوں تو عدالت مجھے پھانسی کی سزا دے گی۔ لیکن بے گناہ 32 ریل مسافر نیند میں مار دیے جائیں تو اس کی سزا محض کام سے ’چھٹی‘۔
جناب! اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی نگاہوں میں انسانوں کی جان کی قیمت کچھ ہوتی تو کسی کو سولی پر چڑھایا جاتا۔ وہاں تو عالم یہ ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے جب گورکھپور میں سرکاری میڈیکل کالج میں 72 بچے آکسیجن کی کمی کے سبب مر گئے اور لوگوں نے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تو بی جے پی صدر امت شاہ نے فرمایا: ’’یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘
جی ہاں، جس پارٹی کی سیاست معصوم انسانوں کے خون کی بنیاد پر رکھی ہو اس پارٹی کے لیے گورکھپور اور کھتولی جیسے واقعہ ’’ہوتے رہتے‘‘ ہیں۔ اس لیے ان کی نوٹس لینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ جب گجرات میں 2002 میں 2000 سے زیادہ بے گناہوں کی موت کا نوٹس نہیں لیا گیا تو پھر 72 یا 32 افراد کی حادثوں میں موت کا کیا نوٹس لینا۔ جو عمارت موت اور خون کے گارے چونے سے بنی ہو اس کو ہر وقت خون کی آبیاری درکار ہے۔
وہ گجرات فساد ہوں یا گورکھپور کے معصوم بچوں کی موت، یا پھر کھتولی ریل حادثہ میں مارے جانے والے بے گناہ، بی جے پی کے لیے ’’یہ تو ہوتا رہتا ہے‘‘ سے زیادہ کچھ اور نہیں۔بس فکر یہ کیجیے کہ ابھی اور کتنا خون بہتا ہے جس کے بعد بھی امت شاہ پھر یہی کہیں گے ’’یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔