سیاسی جملے بازی کا ’ریپ‘... مرنال پانڈے
کسی غیر سیاسی بات چیت کی خوبصورتی شخصی باتوں کو سیاسی بحث بازی بنانا نہیں ہے بلکہ قرینے کے ساتھ اور لَے و تال ملاتے ہوئے الفاظ کے انضمام میں ہے۔
کسی صحافی کی جگہ ایک نغمہ نگار کو اسٹیج پر وزیر اعظم سے سیاسی چاشنی میں ڈوبی ’بات چیت‘ کے لیے منتخب کیے جانے کے اسباب کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں فن کو اس کی مختلف شکلوں میں افتخار کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ ’جے زی‘ یا پھر ’یو یو ہنی‘ جیسے ریپرس ہوں یا پھر پرسون جوشی جیسے بالی ووڈ کے نغمہ نگار، آج کل ایسے ہی لوگ مذاکروں اور مباحثوں کی محفلوں میں نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ اب اہم میڈیا اداروں کے سربراہ ہیں، یہاں تک کہ ایسے لوگ بڑے بڑے بین الاقوامی ادبی تقاریب کے پوری طرح بھرے ہال میں اپنے ہٹ گانوں کا شور مچا رہے ہیں۔ اب اصل دھارے کی میڈیا کے لوگ نہیں بلکہ ایسے لوگ ان ناظرین کی توجہ مرکوز کر رہے ہیں جو ڈیجیٹل موسیقی، یو ٹیوب پر ہوئے کوی سمیلن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے علم حاصل کر کے تیار ہوئے ہیں۔
آج صبح مجھے ایک ناراض شیدائی کے ذریعہ (ٹوئٹر پر، اور کہاں) بتایا گیا کہ اس سیاسی رنگینیوں والے پروگرام میں جو کچھ ہوا وہ بات چیت تھی، انٹرویو نہیں۔ پوری پیشکش اور اس کی جو بھی وجہ رہی ہو، سیاسی طور پر جارح دیسی ناظرین اور منھ سے نکلی ہر بات کا بتنگڑ بنانے کی فراق میں لگی میڈیا کے لیے نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں جب ’بات چیت‘ کے آرگنائزر نے ملک کے وزیر اعظم سے سوال پوچھنے کے لیے اسٹیج سے نیچے وہاں موجود ناظرین کا رخ کیا تو وہ کسی کٹّر صحافی کو نہیں بلکہ ایک دوست اور غزلیہ چہرے کو ہی ترجیح دے رہے تھے۔
ایسے میں ظاہر تھا کہ انھیں پرسون جوشی سے اچھا اور کون شخص مل سکتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پرسون جوشی ایک اچھے ایڈورٹائزنگ گرو اور مصنف ہیں۔ پرسون جوشی نے جس طرح کی موسیقی کو مقبول بنایا ہے وہ غیر سیاسی ہے اور ہمارے آس پاس بہتی انسانی رواداری کی طرح ہے، حالانکہ اس میں روز بہ روز گرتی سطح زندگی کا بھی عنصر ہے۔ ’دلّی-6‘ کا نغمہ ’سسرال گیندا پھول‘ یا پھر ’بابل جیا مورا گھبرائے‘ جیسے نغمے نربھیا واقعہ سامنے آنے کے بعد سپرہٹ ثابت ہوئے۔
کسی غیر سیاسی بات چیت کی خوبصورتی شخصی باتوں کو سیاسی بحث بازی بنانا نہیں ہے بلکہ قرینے کے ساتھ اور لَے و تال ملاتے ہوئے الفاظ کے انضمام میں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ فنکاروں کے درمیان کا مذاکرہ ہو۔ لچھے دار لفظوں میں لپٹی زبان اس بات کی گارنٹی ہوتی ہے کہ سوال پوچھنے اور جواب دینے والے دونوں کی ہی شخصیت بڑی بنی رہے گی، اور پورے مینجمنٹ کے دوران صبر قائم رہے گا۔ اس سب سے ایک ایسا تصوراتی ماحول پیدا ہوتا ہے جیسے دو ایسے شاعر-فلسفی کے درمیان بات چیت ہو رہی ہو جو ایک دوسرے سے بے حد رشک کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں تو ایسا ہے ہی نہیں۔
اس حیرت انگیز پالیسی نے ایسا ماحول بنایا اور یہاں تک کیا کہ ان لوگوں کی زندگی کی تعریف و توصیف کی جو ملک کی جھگی بستیوں میں گندگی اور تشدد کے درمیان پرورش پاتے ہیں اور ان لوگوں کو کسی ریلوے اسٹیشن پر چائے یا سڑک کنارے ہوائی چپل پہن کر پکوڑے بیچنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ ’بھارت بدل رہا ہے‘ کہا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ گزرے دنوں کے اٹل بہاری واجپئی جیسے بی جے پی لیڈروں کی آوازیں کے ایل سہگل کے نغموں کی طرح محسوس ہوں گی۔
لیکن جب تک یہ سب چلتا رہے گا اس وقت تک ہمارے لیے اور خاص طور سے دیسی ناظرین کے لیے کسی لمبی دوری کے رَنر (دوڑنے والا) کی تنہائی کے بارے میں پوچھے جا رہے فلسفیانہ سوالوں میں کئی سارے اہم ایشوز دھومل ہو جائیں گے۔ یہ ایشوز ٹھپ پڑی پارلیمنٹ، اب تک بھروسے مند رہی فخر آمیز عدلیہ، دَم توڑتے کسانوں، فرقہ وارانہ سوچ اور خواتین و بچیوں کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے دہشت ناک جرائم سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس نام نہاد ڈائیلاگ یعنی مذاکرہ کو ٹی وی پر دیکھنا بہت اٹپٹا تھا، کیونکہ ٹی وی اسکرین سے الگ مغربی میڈیا اور آئی ایم ایف چیف ہندوستان میں خواتین کے خلاف لگاتار بڑھ رہے جرائم کے ایشوز اٹھا رہے تھے۔ ہمارے ریاستی وزیر مملکت برائے خارجہ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے منصوبے شروع کر رہے تھے۔ اطلاعات و نشریات کی وزیر ساڑیاں اور گائے بانٹنے کا اعلان کر رہی ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ بتا رہے ہیں کہ انٹرنیٹ تو ہزاروں سال پہلے ہندوستانیوں نے ایجاد کر دیا تھا۔ سمجھداری اور ہوشمندی سے متعلق مشہور ریپر جے زی نے ایک بار کہا تھا ’’اس کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، جب یہ نہیں ہوتا تو آپ کو نظر نہیں آتا۔‘‘
(مرنال پانڈے نیشنل ہیرالڈ، نَو جیون اور قومی آواز کی سینئر ادارتی مشیر ہیں۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔