اسرائیلی وزیر اعظم کا دورہ اور پس پردہ حقائق
جہاں تک تجارتی فروغ کی بات ہے تو اس میں ہتھیاروں کی خرید وفروخت بھی شامل ہے۔ یوں بھی ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
ہندوستان نے جس طرح اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے اسے ہند ۔اسرائیل تعلقات کے فروغ میں کوئی اہم حیثیت حاصل ہو تو ہو لیکن اس کی خارجہ پالیسی میں اسے ایک بد ترین واقعہ کے طور پر دیکھا جائے گا۔ دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی اس قربت کے بین السطور میں بہت کچھ پوشیدہ ہے جو آگے چل کر منظر عام پر آئے گا اور تب یہ محسوس ہوگا کہ ہندوستان نے اپنی سماجی ہم آہنگی کے لیے کتنا خطرناک قدم اٹھایا تھا۔ نیتن یاہو کے دورے میں دو باتوں پر زیادہ زور ہے۔ ایک تجارتی فروغ اور دوسرے دہشت گردی مخالف جنگ۔ جہاں تک تجارتی فروغ کی بات ہے تو اس میں ہتھیاروں کی خرید فروخت بھی شامل ہے۔ یوں بھی ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ جب ہندوستان نے پہلی بار ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو امریکہ نے ہندوستان پر کچھ پابندیاں عاید کر دی تھیں جن میں بعض ہتھیاروں کی خرید پر پابندی بھی شامل تھی۔ ہندوستان جن ہتھیاروں کو براہ راست امریکہ سے نہیں خرید سکتا انھیں وہ اسرائیل کے توسط سے خریدتا ہے۔
اگر ہم تاریخ پر سرسری نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ جب 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تو ہندوستان نے اسی وقت اسے تسلیم کر لیا تھا۔ البتہ سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے۔ جب نرسمہا راؤ ہندوستان کے وزیر اعظم ہوئے تب یعنی 1992 میں دونوں ملکوں کے مابین مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اسی دور میں ایک بار ہندوستانی قیادت نے اسرائیل سے پوچھا تھا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں تو اسرائیل نے کہا تھا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہم سے مکمل سفارتی تعلق قائم کر لیں۔ سفارتی تعلق تو قائم ہو گیا لیکن اس کو رفتار اگلے برسوں میں ملی۔ 1997 میں اسرائیل کے صدر ایزر وائزمین نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد 2003 میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اسرائیلی وزیر اعظم ارئیل شیرون کا ہندوستان میں خیرمقدم کیا۔ جب سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اسرائیل کا دورہ کیا تو انھوں نے اس بات پر عوامی طور پر اظہار افسوس کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتوں کے قیام میں ہندوستان کی جھجک صرف ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے تھی۔ یہ اشارہ کس طرف تھا اور اس سے کس قسم کی غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی، کہنے کی ضرورت نہیں۔ نریندر مودی نے گجرات کے وزیر اعلی کی حیثیت سے 2006 میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور سفارتی تعلقات رفتہ رفتہ مضبوط ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے 2014 میں پہلی بار اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ لیکن دونوں ملکوں کے مابین تاریخی واقعہ مودی کا بحیثیت وزیر اعظم اسرائیل کا دورہ تھا۔ جب گزشتہ سال جولائی میں مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا تو نیتن یاہو نے یہ کہہ کر ان کا استقبال کیا تھا کہ ’’سواگت ہے میرے دوست، آپ نے یہاں آنے میں اتنا وقت کیوں لگایا، ہم 70 برسوں سے آپ کا انتظار کر رہے تھے‘‘۔ در اصل وہ دورہ ہند ۔اسرائیل تعلقات کے سلسلے میں ایک سنگ میل بن گیا اور فلسطینی عوام اور فلسطینی مملکت کے تعلق سے ہندوستان کے موقف میں ایک ہمالیائی تبدیلی کا بھی سبب بن گیا۔ مودی نے اسرائیل کا دورہ تو کیا لیکن وہ فلسطین نہیں گئے جبکہ ہندوستان کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے کہ یہاں کا کوئی بھی سیاست داں اسرائیل جاتا تو وہ فلسطین بھی ضرور جاتا۔ اگر چہ ہندوستان نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دیا تھا لیکن اس ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں آنے والی بنیادی تبدیلی کی ہے۔ پہلے اسرائیل کے سفیر نے اور پھر اسرائیلی وزیر اعظم نے نشاندہی کی ہے کہ ایک ووٹ پر ہمارے رشتوں کا انحصار نہیں ہے، ہمارے رشتے تو اب بہت خاص ہو گئے ہیں۔
یہ خاص رشتے کس نوعیت کے ہیں اور آگے کس نہج پر بڑھیں گے اس کا اندازہ نیتن یاہو کی ان تقریروں سے لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے مشترکہ پریس کانفرنس اور وزارت خارجہ کے زیر اہتمام منعقدہ رائسینہ ڈائیلاگ میں کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ملک اسلامی دہشت گردی سے متاثر ہیں اور ہم نے اس سے نمٹنے اور سیکورٹی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو کمزور ہے وہ زندہ نہیں رہ سکتا، زندہ رہنے کے لیے مضبوط ہونا پڑے گا۔ انھوں نے ہندوستان سے کہا کہ وہ مضبوط بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’دونوں جمہوریتوں کے مابین اتحاد سے ہم انتہاپسند اسلام سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکیں گے‘‘۔ ان کا یہ بیان بہت واضح ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ملک نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہو جائیں اور اسے ناکام بنا دیں۔ ہندوستان اور اسرائیل کے نزدیک اسلامی دہشت گردی کیا ہے اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان میں کس طرح دہشت گردی کے نام پر بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں اور انھیں ایذائیں پہنچائی جاتی ہیں یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اسی طرح اسرائیل ان معصوم فلسطینی بچوں کو بھی اسلامی دہشت گرد کہتا ہے جو اپنے دفاع میں اسرائیلی بندوقوں کے مقابلے میں پتھراؤ کرتے ہیں یا ان کی گولیوں کے جواب میں کم از کم ہاتھ پیر سے ہی ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اسرائیل اس فلسطینی دوشیزہ کو بھی دہشت گرد قرار دیتا ہے جس نے اپنے وقار کے تحفظ کے لیے ایک اسرائیلی فوجی کو چانٹا رسید کر دیا تھا۔ لہٰذا ہندوستان میں دہشت گردی مخالف جنگ کے نام پر کن لوگوں کو نشانہ بنایا جائے گا یہ بہت واضح ہے۔
ہندوستان کی موجودہ حکومت کا اسرائیل پریم کیوں ہے یہ بھی سب جانتے ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات جہاں ہٹلر کے نظریات سے میل کھاتے ہیں وہیں وہ اسرائیل کے نظریات سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ دونوں کا نظریاتی سرچشمہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام دشمنی اور مسلم مخالفت۔ ہندوستانی فوجی کشمیر میں دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے پہلے سے ہی اسرائیلی فوجیوں سے تربیت حاصل کر تے رہے ہیں، اس کے ہتھیاروں کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب امکان اس بات کا ہے کہ یہ سلسلہ اور تیز ہو جائے گا۔
اس دورے میں دو بڑے جھوٹ بھی اب تک بولے جا چکے ہیں۔ پہلا یہ کہ نریندر مودی اور نیتن یاہو نے دہلی میں تین مورتی کا دورہ کیا اور وہاں ان سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ’’جنھوں نے 1918 میں اسرائیل کے شہر حیفہ کے تحفظ کی خاطر اپنی جانیں گنوا ئی تھیں‘‘۔ تین مورتی چوک کا نام بدل کر تین مورتی حیفہ چوک رکھ دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بنجامن نیتن یاہو نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ہیں جنھوں نے تین ہزار برسوں کے دوران پہلی بار اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ دروغ گوئی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ اسرائیل کا وجود تین ہزار برسوں پر مشتمل بتایا جا رہا ہے جبکہ اس کا قیام 1948 میں فلسطینی زمینوں پر غاصبانہ قبضے کے ساتھ ہوا تھا۔ 1918 میں بھی اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا جو تھا وہ فلسطین کاتھا۔ لیکن کہا گیا کہ 1918میں اسرائیل کے حیفہ کے تحفظ میں ہندوستانی سپاہیوں نے جانیں گنوائی تھیں۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمس بَلفور نے 1917 میں اسرائیل کے قیام کے سلسلے میں ایک اعلامیہ جاری کیا تھا۔ اس کے بعد 1948 میں اسرائیل کا ناجائز قیام عمل میں آیا تھا اور 1967کی جنگ میں مزید علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا تھا۔ اس بارے میں حالیہ دنوں میں بہت سے مضامین آخباروں میں شائع ہوئے تھے۔ لیکن تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا فسطائی قوتوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ ورنہ نیتن یاہو یہ کیوں کہتے کہ تین ہزار برسوں میں پہلی بار کسی ہندوستانی وزیر اعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ ظاہر ہے یہ بھی ایک حکمت عملی ہے تاکہ تاریخ کے اوراق سے حقائق کو مٹا دیا جائے اور ان کی جگہ پر جھوٹی اور بے بنیاد تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہندوستان کا کہنا ہے کہ فلسطین کے بارے میں اس کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ اب بھی دو ریاستی حل کے حق میں ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ فلسطین سے دوری برتی جا رہی ہے اور اسرائیل سے قربت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ قول و فعل میں تضاد ہے۔ ہندوستان فلسطین کے کاز کے لیے اب پہلے جیسا سنجیدہ نہیں رہا۔ اس کے موقف میں وہ پختگی نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی اور جس کی بنیاد پر یاسر عرفات ہندوستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے تھے۔ دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ پرانے اتحاد ٹوٹ رہے ہیں، نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ پہلے نریندر مودی اور اب نیتن یاہو کے دورے اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ اب ہندوستان کی خارجہ ترجیحات میں فلسطین نہیں بلکہ اسرائیل ہی سرفہرست ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Jan 2018, 8:00 PM