الیکشن کمیشن نے گجرات ماڈل پر سوال کھڑے کر دئیے
الیکشن کمیشن نے ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی گجرات کے انتخابات کا اعلان نہ کر کے ایک طرح سے بی جے پی کے گجرات ماڈل پر سوال کھڑے کر دئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے ساتھ گجرات اسمبلی کی تاریخوں کا تو اعلان نہیں کیا مگر یہ ضرور کہا کہ گجرات میں بھی انتخابی عمل 18دسمبر تک مکمل ہو جائے گا ۔ مطلب صاف ہے کہ انتخابی شیڈیول تو ویسا ہی رہے گا جیسا ہماچل کا ہے اور دونوں کی گنتی کی تاریخ بھی ایک ہی رہے گی لیکن ابھی انتخابی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے ایسا کیوں کیا اس کا کوئی ’جائز‘جواز نظر نہیں ا ٓ رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کے لئے ایسی کون سی مجبوری تھی کہ وہ ہماچل پردیس اسمبلی انتخابات کے شیڈیول کا تو اعلا ن کرے لیکن گجرات کا نہ کرے ۔اگر گجرات حکومت کے کچھ اعلانات اور وزیر اعظم کے گجرات دورے کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے تو کیا ہماچل پردیس اسمبلی کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان چند روز بعد نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اگر ہماچل پر دیش اسمبلی کی تاریخوں کے لئے مطلوبہ 45دن کی ضرورت تھی تو اس میں ابھی گنجائش باقی تھی اور اگر نہیں بھی ہوتی تو ہماچل پردیش کی تاریخوں کو تھوڑا آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ بحر حال یہ وہ بحث ہےجو اب بے معنی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہ کرکےادارے کے اوپر زبردست سوال کھڑے کروا دیئے ہیں اور جونقصان پہنچانا تھا وہ پہنچا دیا ہے۔ سابق الیکشن کمشنر ٹی این شیشن نے جو الیکشن کمیشن کو پہچان دلوائی تھی اس پہچان کو گرد آلود کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس اس غلطی کا کوئی جواب نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کی اس بڑی غلطی کی وجہ چاہے حکومت کا دباؤ رہا ہو یا کچھ اور لیکن اس بات پر سے پردہ اٹھ گیا ہے کہ 2014کے پارلیمانی انتخابات سے قبل جس طرح بی جے پی اور وزارت عظمی کے امیدوار خود نریندر مودی نے جس طرح کے دعوے کیےتھے سب کے سب غلط یا یوں کہیے وہ سب کے سب جملےثابت ہو رہے ہیں ۔ چاہے ایک فوجی کے بدلے میں دس پاکستانی فوجیوں کے سر کاٹ کر لانے کی بات ہو، چاہے عوام کے کھاتوں میں 15لاکھ روپے کے آنے کی بات ہو ، چاہے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بات ہو، چاہے ڈالر کے مقابلے روپے کو مضبوط کرنے کی بات ہو ، چاہے کسانوں کو لاگت کی صحیح قیمت دلانے کی بات ہو اور چاہے ملک میں مہنگائی کم کرنے کی بات ہو سب کے سب جملے ثابت ہو رہے ہیں ۔پارلیمانی انتخابات میں جو سب سے بڑی بات کہی جا رہی تھی اور جس کے بل بوتے پر نریندر مودی کو وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا تھا وہ گجرات حکومت کا ماڈل تھا۔ گجرات کو پورے ملک کے سامنے ایسے پیش کیا گیا تھا جیسے وہ رام راج ہو جہاں ترقی اپنا پورا سفر طے کر چکی ہو اور ریاست میں اب کچھ کرنے کو باقی نہیں رہا ہو بلکہ اس ریاست کی طرح پورے ملک میں حکومت چلانی ہو اور ترقی کرنی ہو ۔
ہماچل پردیش اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہو اور گجرات اسمبلی الیکشن کا اعلان ساتھ میں نہ کیا جائے تو سوال تو کھڑے ہی ہوں گیں ۔ ایسا کرنے کے پیچھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ابھی ریاست میں کچھ منصوبوں کا اعلان ہونا اور کچھ طبقوں کے لئے راحت کا اعلان کرنا باقی رہ گیا ہو ۔ کیا یہ وہی گجرات ہے جس میں ترقی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی جس کو ملک کے لئے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جس میں کچھ بڑا کرنے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی ۔ اگر ایسا تھا تو ہماچل پردیش سے پہلے گجرات اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا۔ یعنی گجرات ماڈل بھی ایک دھوکہ تھا ، ایک جملہ تھایعنی وہاں ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔اس سب کے لئے الیکشن کمیشن ذمہ دار ہے جس نے ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے ساتھ گجرات اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان نہ کر کے گجرات ماڈل پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔
اب اس سے زیادہ اور کتنا صاف ہوگا کہ 2014سے پہلے عوام کو صرف جملوں سے بہلایا گیا تھا ۔ کسی بھی پارٹی کو یہ بالکل حق نہیں ہے کہ وہ عوام کے جذبات سے کھیلے اور اس کو جملوں سے بے وقوف بنائے۔ انتخابات جیتنے کے لئے اتنی بڑی بڑی باتیں کرنا کسی بھی جمہوریت اور جمہوری ملک کے لئے اچھا نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔