زینب قوم کی بیٹی تھی،قوم کا سر شرم سے جھک گیا: چیف جسٹس
زینب قتل معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پولیس سے چوبیس گھنٹے کے اندر جواب طلب کیا ہے۔
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں ایک چھ سالہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور اس کے بعدقتل کا ازخو دنوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ زینب قوم کی بیٹی تھی اور اس واقعے سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ واضح رہے کہ زینب کو شہر قصور میں 4 جنوری کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔ بعد میں اس کی لاش کوڑے کے ایک ڈھیر کے پاس سے برآمد ہوئی تھی۔ جب یہ واقعہ پیش آیا زینب کے والدین عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے۔ اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پولیس سے چوبیس گھنٹے کے اندر جواب طلب کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ زینب معاملہ پر مشتعل لوگوں نے بدھ کے روز زبردست مظاہرہ کیا تھا اور بھی علاقے میں مظاہرین کی زبردست بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ کل مظاہرین نے تھانہ اور ایک سرکاری عمارت پر حملہ بھی کردیا تھا۔اس دوران پولیس کارروائی میں دو مظاہرین کی گولی لگنے سے موت ہوگئی اور کئی دیگر زخمی ہوگئے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے جنمیں سے 68 ضلع قصور سے رپورٹ ہوئے۔یہ اعداد و شمار نجی سطح پر کام کرنے والی تنظیمساحل کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں جبکہ وفاق اور صوبائی سطح پر اس قسم کا کوئی مربوطنظام موجود نہیں جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اوراعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں۔ان 768واقعات کے بارے میں کسی ادارے کے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے کہ ان میں سےکتنے کیسز میں ملزمان گرفتار ہوئے یا انھیں سزائیں سنائی جا سکیں۔رپورٹ کے مطابق صوبائیاور وفاقی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کے تحفظ میں اقدامات اور قوانین پرعملدرآمد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں کل کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد،سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 58، کے پی میں 42 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیرمیں نو فیصد رجسٹرڈ ہوئے۔گذشتہدو برسوں میں اسلام آباد، قصور، لاہور، راولپنڈی، شیخوپورہ، مظفرگڑھ، پاکپتن، فیصلآباد، ویہاڑی، خیرپور، کوئٹہ، اوکاڑہ اور سیالکوٹ ایسے اضلاع کے طور پر سامنے آئےجہاں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے۔
ادھر صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے زینب قتل کیس کی تحقیقات میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 4 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ارکان نے زینب کے اہل خانہ سے رابطہ کرلیا ہے جبکہ قاتل کو جلد گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زینب کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے فائرنگ کا حکم نہیں دیا تھا یہ ان اہلکاروں کا غیر ذمہ دارانہ فعل تھا۔
اس دوران زینب کے قتل کے خلاف سندھ اسمبلی میں مذمتی قراد داد پیش کردی گئی۔قرار داد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) پاکستان، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی ارکان کی جانب سے پیش کی گئی۔قرار داد میں زینب کے قتل کی مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ قاتل کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ دریں اثنا سینئر وکیل احمد رضا قصوری نے دعویٰ کیا ہے کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں بتایا ہے کہ زینب کا قاتل کوئی قریبی رشتے دار ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق مسٹر قصوری نے دعویٰ کیا کہ وہ آج جمعرات کو چیف جسٹس کے چیمبر میں گئے اور انہوں نے اس واقعے پر از خود نوٹس لینے پر شکریہ ادا کیا تو انہوں نے مجھے یہ خوش خبری دی کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے ملزم کے نام اور رشتے سے متعلق نہیں پتہ، تاہم میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ کوئی قریبی رشتے دار ہے۔
دوسری طرف قصوری کے دعویٰ پر وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس جو اطلاعات ہیں اس کہ مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور 100 کے قریب لوگوں کے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث ملزم کو جلد گرفتار کرلیں گے اور اس کی گرفتاری سے ذرائع ابلاغ کو بھی آگاہ کریں گے۔
خیال رہے کہ زینب واقعہ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ آج بھی جاری رہا ۔ گذشتہ روز قصور میں حالات اس وقت کشیدہ ہوگئے، جب بڑی تعداد میں مشتعل مظاہرین نے قصور کے ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا۔اس موقع پر مشتعل مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی، اس دوران مبینہ طور پر فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہوگئے، جس کے بعد کشیدہ صورتحال کے پیشِ نظر انتظامیہ نے رینجرز طلب کرلی۔
یاد رہے کہ قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایک سال میں اس طرح کے 11 واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں زیادتی کا نشانہ بنائی گئی بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ریپ کرکے قتل کردیا گیا تھا ۔ ان تمام بچیوں کی عمریں 5 سے 8 سال کے درمیان تھیں لیکن پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Jan 2018, 8:24 PM