آخر سہراب الدین معاملے سے کون خوفزدہ ہے!

سہراب الدین معاملے کی سماعت سے متعلق رپورٹنگ پر روک لگانے کے حکم سے سوال کھڑا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جسے عدالت بچانا چاہتی ہے اور جو سماعت کے دوران ہونے والے انکشافات لوگوں تک پہنچنے سے خوفزدہ ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اتم سین گپتا

سہراب الدین شیخ کا کیس کیوں اس قدر حساس اور سنسنی خیز ہے کہ ممبئی کی خصوصی سی بی آئی عدالت نہیں چاہتی ہے کہ میڈیا میں اس کیس کی سماعت کی رپورٹنگ ہو۔ یہ دوسرا موقع ہے جب میڈیا پر لگام لگانے والا اس طرح کا کوئی حکم دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسا حکم اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر تشدد کے لیے اُکسانے کے ایک معاملے میں دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے میڈیا پر لگام لگانے والا حکم دیا تھا جب کہ سہراب الدین شیخ معاملے میں ذیلی عدالت نے اس طرح کا حکم دیا ہے۔

عدالت کے ذریعہ ایسی حساسیت لالو پرساد یادو جیسے معروف لیڈروں کے خلاف مجرمانہ معاملوں کی سماعت کے دوران بھی نہیں دکھائی گئی تھی۔ کیا گجرات انتخابات کی وجہ سے عدالت پر کوئی دباؤ ہو سکتا ہے۔ یا پھر یہ کہ سی بی آئی عدالت کے جج برج موہن لویا کی 2014 میں ہوئی حیرت انگیز موت پر حال میں کھڑے ہوئے تنازعہ کے بعد ’لویا معاملے‘ کا اثر ہے جس نے عدالت کو اس طرح کا حکم دینے پر مجبور کر دیا۔

حیران کرنے والی بات تو یہ ہے کہ معاملے میں اہم ملزم بی جے پی کے قومی سربراہ امت شاہ سمیت کئی دیگر پولس افسران کو پہلے ہی عدالت سے بری کیا جا چکا ہے۔ اس معاملے میں سی بی آئی کے ذریعہ ملزم بنائے گئے 38 ملزمین میں سے اب تک 15 کو بری کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ سہراب الدین شیخ اور اس کی بیوی کوثر بی کی نومبر 2005 میں فرضی انکاؤنٹر میں کیے گئے قتل کے معاملے میں ابھی بھی چھوٹی مچھلیوں کے خلاف معاملہ چل رہا ہے۔ شیخ کا ایک ساتھی تلسی رام پرجاپتی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک وصولی گروہ کے لیے کام کرتا تھا، سی بی آئی کے مطابق پرجاپتی اس معاملے کا ایک چشم دید گواہ تھا جس نے گجرات پولس کو حیدر آباد کے پاس سے شیخ جوڑے کو حراست میں لیتے دیکھا تھا۔ اس کا بھی ایک سال بعد ایک انکاؤنٹر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ پرجاپتی نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس کا قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے قومی حقوق انسانی کمیشن اور دیگر اداروں کو خط لکھ کر اپنی جان بچانے کی اپیل کی تھی۔ لیکن 2006 میں ایک انکاؤنٹر میں اس کا بھی قتل کر دیا گیا۔

عدالت سے ضمانت پر چھوٹنے کے بعد گجرات حکومت نے ان میں سے کچھ پولس افسران کو پھر سے سروس میں واپس لے لیا اور پروموشن بھی کر دیا۔ 2005 میں گجرات کے وزیر داخلہ امت شاہ کے بری ہونے کے بعد ان پولس افسران کو بھی الزامات سے بری کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ڈی جی ونجارا کو بھی اس سال اگست میں سبھی الزامات سے بری کر دیا گیا۔ ونجارا نے سال 2013 میں جیل سے ایک خط لکھا تھا جو کافی مقبول بھی ہوا تھا۔ اس خط میں انھوں نے اپنے سیاسی آقاؤں کو بے نقاب کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ونجارا نے لکھا تھا کہ پولس والوں نے صرف حکم کی تعمیل کی تھی اور سبھی انکاؤنٹر حقیقی تھے۔

امت شاہ کو سال 2010 میں گرفتار کرنے والی سی بی آئی نے اس معاملے میں سال 2012 میں فرد جرم داخل کیا تھا۔ اس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ شیخ کچھ پولس افسران کے ساتھ مل کر جبراً وصولی کرنے والا گروہ چلاتا تھا اور اس پر احمد آباد کے تاجروں کو دھمکانے کا بھی الزام تھا۔ غیر مصدقہ طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گجرات پولس کے ذریعہ شیخ کا استعمال جرائم پیشوں کے ساتھ ساتھ کچھ لیڈروں کا قتل کرنے میں بھی کیا گیا تھا۔

سی بی آئی کے فرد جرم کے مطابق شیخ کو گرفتار کرنے کے لیے پولس افسران کی ایک ٹیم کو حیدر آباد بھیجا گیا تھا۔ اس ٹیم نے ایک بس کو روکا جس میں سہراب الدین شیخ اپنی بیوی کوثر بی اور تلسی پرجاپتی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ کوثر بی نے خود حراست میں لیے جانے پر کافی زور دیا۔ لیکن پرجاپتی کو جہاں راجستھان پولس کے حوالے کر دیا گیا وہیں سہراب الدین اور اس کی بیوی کو احمد آباد کی سرحد پر موجود الگ الگ فارم ہاؤس میں رکھا گیا۔

سی بی آئی کے ذریعہ عدالت میں پیش کیے گئے گواہوں کے بیانات میں ذیلی سطح کے پولس ملازمین نے کہا کہ کوثر بی کو حراست میں رکھنے کے لیے جس پولس انسپکٹر کو تعینات کیا گیا تھا اس نے اس کے ساتھ عصمت دری کی۔ جب اسے شیخ کی موت کے بارے میں بتایا گیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئی۔ جس کے بعد اس کے قتل سے پہلے اس پولس افسر نے اسے بے ہوش کر دیا اور بعد میں اس کی لاش کو جلا دیا گیا۔

گجرات پولس نے 2005 میں دعویٰ کیا تھا کہ سہراب الدین لشکر طیبہ کا ایک خطرناک دہشت گرد ہے جسے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کا قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لیکن 2007 میں گجرات پولس افسران کی ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اسے ایک فرضی انکاؤنٹر بتاتے ہوئے ونجارا سمیت کئی پولس افسران کو گرفتار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو سی بی آئی کے سپرد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت کو گجرات سے باہر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

سی بی آئی نے ثبوت کے طور پر فون کال کے ریکارڈ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ امت شاہ انکاؤنٹر کرنے گئی ٹیم کے ساتھ براہ راست رابطہ میں تھے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔e

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Dec 2017, 9:03 AM