البرٹ آئن سٹائن، ایک نسل پرست جینیئس؟
البرٹ آئن شٹائن کی سفری ڈائریوں کا انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے، جن میں آئن سٹائن کے چین اور چینی باشندوں سے متعلق ایسے پریشان کن جذبات کا انکشاف ہوا ہے، جنہیں ماہرین ’نسل پرستانہ‘ قرار دے رہے ہیں۔
ان سفری ڈائریوں میں آئن سٹائن نے چین اور چینی باشندوں سے متعلق جو کچھ کہا ہے، اس پر چین میں ملکی میڈیا کی طرف سے کی جانے والی تنقید بظاہر بجا نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا دنیا کے یہ معروف ترین ماہر طبیعیات ایک نسل پرست انسان تھے؟
اہم بات یہ ہے کہ یہی سائنسدان ایک ایسی شخصیت بھی تھے، جس نے امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے اس ملک میں افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر شدید تنقید کرتے ہوئے امریکا میں سفید فام اور سیاہ فام آبادی کے درمیان نسلی تفریق کو ’’سفید فاموں کی بیماری‘‘ قرار دیا تھا۔
اب سامنے آنے والی نئی بات یہ ہے کہ یہی البرٹ آئن سٹائن شاید ایک ایسی شخصیت بھی تھے، جس نے درپردہ اپنے دل و دماغ میں ’نسل پرستانہ تعصبات‘ کو جگہ دے رکھی تھی۔ یہ بات ان کی ان سفری ڈائریوں سے پتہ چلتی ہے، جو 1922ء اور 1923ءکے ان کے مشرق بعید، فلسطین اور اسپین کے دوروں کے دوران لکھی گئی تھیں، اور جن کا انگریزی زبان میں ترجمہ کچھ عرصہ قبل شائع ہوا۔
اس کتاب کا عنوان ہے: ’ٹریول ڈائریز آف البرٹ آئن سٹائن‘ اور برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ کے مطابق ان سفری روزنامچوں میں آئن سٹائن نے جو کچھ لکھا ہے، وہ ثابت کرتا ہے کہ آئن سٹائن دیگر پہلوؤں کے علاوہ اپنی سوچ میں نسل پرستانہ رویوں کے حامل بھی تھے۔
اس بارے میں ’گارڈیئن‘ نے لکھا ہے، ’’البرٹ آئن سٹائن کی وہ ڈائریاں، جن میں انہوں نے 1920ء کی عشرے میں اپنے دورہء ایشیا کی تفصیلات اور اپنے تاثرات درج کیے ہیں، دو انکشاف کرتی ہیں: ایک تو یہ کہ یہ ماہر طبیعیات ایک بہت بڑی انسان دوست شخصیت تھے اور دوسرے یہ کہ ساتھ ہی وہ ان لوگوں کے بارے میں نسل پرستانہ تعصبات سے عبارت سوچ کے حامل بھی تھے، جن سے وہ اپنی اس سیاحت کے دوران ملے تھے۔‘‘
جرمن زبان میں لکھی گئی آئن سٹائن کی ان ڈائریوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ پرنسٹن یونیورسٹی پریس نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ ان ڈائریوں میں آئن سٹائن نے ہانگ کانگ اور شنگھائی میں روزمرہ زندگی سے متعلق اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے ہیں۔
ان سفری روزنامچوں میں آئن سٹائن نے کافی حد تک تعریف و توصیف سے ہاتھ کھینچ کر رکھا اور بہت سی جگہوں پر وہ اس دور کے چین کی مشکلات اور اقتصادی حالات پر اپنے تاثرات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ڈائری 1922ء میں آئن سٹائن کے شنگھائی میں قیام کے دوران ایک دن پیدل چلتے ہوئے ان کی طرف سے کیے گئے مشاہدات کا احاطہ کرتی ہے۔
اپنے ان مشاہدات میں آئن سٹائن نے لکھا ہے، ’’میں نے ایک ایسی پریشان کن لڑائی بھی دیکھی، جو دراصل بقا کی لڑائی تھی، کمزور اور بظاہر سست اور تھکے ہوئے نظر آنے والے ایسے چینی باشندوں کے مابین لڑائی، جو اکثر نظر انداز کر دیے گئے تھے۔‘‘
اس کے علاوہ انہی ڈائریوں میں چند دوسری جگہوں پر آئن سٹائن نے کئی ایسی لسانی تراکیب بھی استعمال کی ہیں، جنہیں تعصب سے پاک قرار دینا بظاہر مشکل لگتا ہے۔ مثلاﹰ ’پرشور کھلی ورکشاپس اور دکانیں‘، بہتر شور و غوغا لیکن لڑائی کا نشان دور دور تک نہیں‘ اور ’وہ جنہیں محض تقریباﹰ کام کرنے والے گھوڑے بنا دیا گیا تھا، لیکن جو کبھی شعوری طور پر یہ احساس نہیں دلاتے تھے کہ انہیں بھی تکالیف اور مصائب کا سامنا ہے‘۔
انہی ڈائریوں میں سے ایک میں آئن سٹائن نے یہ بھی لکھا ہے، ’’یورپ سے آنے والے ان مہمانوں کی طرح، جیسے ہم ہیں، مشترکہ طور پر ایک دوسرے کو مضحکہ خیز انداز میں گھورنا بھی بہت عام ہے۔‘‘
البرٹ آئن سٹائن کو بظاہر یہ علم تھا کہ جب مختلف ثقافتوں کے نمائندہ افراد آپس میں ملتے ہیں تو کس طرح کی پیچیدگیوں کا پیدا ہونا ایک معمول کی بات ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اپنے دورہ چین کے دوران اپنے اس زاویہ نگاہ سے باہر نکلنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی تھی، جو لازمی طور پر ایک یورپی زاویہ نگاہ تھا۔
اسی طرح ان ڈائریوں میں سے ایک میں اپنے دورہ ہانگ کانگ کے دوران آئن سٹائن نے لکھا، ’’کتنے افسوس کی بات ہو گی کہ اگر یہ چینی (غالباﹰ آبادی کے لحاظ اور اپنی تعداد کی وجہ سے) باقی تمام نسلوں کی جگہ لے لیں، جیسے کہ ہم۔ ایسا تو سوچنا ہی کتنا ڈرا دینے والا ہے۔‘‘
چینی میڈیا نے اپنی طرف سے کوئی بھی تبصرہ کیے بغیر برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ میں شائع ہونے والے ان روزنامچوں سے متعلق ایک مضمون کی تفصیلات بھی شائع کی ہیں۔ اس بارے میں کئی چینی صارفین نے اپنے ردعمل کا اظہار بھی کیا ہے۔
ایک چینی صارف نے لکھا، ’’آئن سٹائن ایک معروف سائنسدان تھے۔ لیکن دیگر اقوام کے بارے میں کم تر احترام کا مظاہرہ کر کے انہوں نے خود کو بطور فرد ایک نااہل انسان ثابت کر دیا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک دوسرے چینی صارف نے اپنے ردعمل میں لکھا، ’’ان کا موقف اور دلائل واضح طور پر نسل پرستانہ ہیں۔ میرے خیال میں اگر انہوں نے یہ ڈائریاں دوسری عالمی جنگ کے بعد لکھی ہوتیں، تو یہ ایسی بالکل نہ ہوتیں۔ شاید اسی وجہ سے اپنی زندگی میں ان کا اصرار تھا کہ ان کی یہ ڈائریاں شائع نہ کی جائیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔