مندر کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں نوجوان، پہلی ضرورت کاروبار

ایودھیا میں وی ایچ پی کی ’دھرم سبھا‘ میں زیادہ لوگ نہیں پہنچے، نوجوانوں میں رام مندر کے تئیں گرم جوشی نظر نہیں آئی۔ ’قومی آواز‘ نے نوجوانوں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کی غیر توجہی کی وجہ کیا ہے۔

Getty Images
Getty Images
user

آس محمد کیف

وکاس اگروال عرف ڈبو 36 سالہ نوجوان ہیں اور مظفرنگر کے قصبہ میرانپور میں گفٹ سینٹر چلاتے ہیں۔ سیاسی مسائل میں وہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ یوں بھی ان کی دکانداری تمام بین مذہبی لوگوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ ایودھیا میں ’دھرم سبھا‘ ہو چکی ہے، اس دھرم سبھا میں شامل ہونے کے لئے بڑے پیمانے پر لوگوں کو بلانے کی مہم چلائی گئی تھی۔ بھگون رام پر عقیدہ رکھنے والے وکاس اگروال تک بھی یہ خبر پہنچی، لیکن وہ ایودھیا نہیں گئے۔

وکاس جیسے اور بھی نوجوان ہیں جو رام پر عقیدہ رکھتے ہیں، ان تک ’دھرم سبھا‘ کے 25 نومبر کو انعقاد ہونے کی اطلاع بھی پہنچی لیکن وہ ایودھیا نہیں گئے۔ ’دھرم سبھا‘ میں امید سے بے حد کم لوگ پہنچے اور اسے فلاپ شو قرار دیا گیا۔ ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے وکاس اگروال عرف ڈبو نے کہا ’’کاروبار بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ بازار میں مندی چھائی ہوئی ہے، مقروض ہو چکا ہوں، اب میرے لئے بچوں کی ذمہ داری سب سے اہم ہے۔ ‘‘ وکاس نے مزید کہا ’’میں رام کو مانتا ہوں اور گھر پر ان کی پوجا بھی کر لیتا ہوں۔ اس معاملے میں سیاست ہو رہی ہے، بی جے پی مندر نہیں بنا رہی۔ ‘‘ وکاس کا کہنا ہے کہ وہ ایودھیا اس لئے نہیں گئے کیونکہ زرہ زرہ میں رام بسے ہوئے ہیں۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
گفٹ سینٹر چلانے والے وکاس اگروال عرف ڈبو

دراصل ٹی وی چینلوں اور دوسرے میڈیا ذرائع سے ہر گھر میں ایودھیا اور رام مندر کا شور تھا۔ مہاراشٹر سے ہزاروں شیو سینا کارکنان خصوصی ٹرین سے ایودھیا پہنچے تھے۔ اتر پردیش پولس نے آدھا درجن سے زیادہ آئی پی ایس اور بھاری تعداد میں پولس تعینات کی تھی۔ مسلم طبقہ سے وابستہ کافی لوگ خوف سے گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ قیاس لگایا جا رہا تھا کہ 1992 جیسے حالات ہوسکتے ہیں، لیکن وہاں نہ تو زیادہ بھیڑ جمع ہو پائی اور نہ ہی نوجوانوں میں پہلے جیسا جوش ہی نظر آیا۔

مندر کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں نوجوان، پہلی ضرورت  کاروبار
ششانک شرما، سنجے لوہان اور نتن جاٹو

میرٹھ کی ایک فیکٹری میں ٹربائن انجینئر کے طور پر کام کر رہے ششانک شرما (27) ایودھیا میں رام مندر تعمیر کرنے کی پر زور حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ایک مقامی رکن اسمبلی کے بھتیجے نے ان سے ایودھیا جانے کی اپیل کی، کیونکہ یہاں سے ایک بس جا رہی تھی، کھانے پینے کا سب انتظام تھا لیکن میں نہیں گیا، میں رام بھگت ضرور ہوں لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ مندر اب عقیدہ کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ کرسی تک پہنچنے کی سیڑھی بن چکا ہے۔ ‘‘

ششناک نے کہا، ’’سب سے پہلے روزگار ہے اس کے بعد کوئی اور چیز۔ کھالی پیٹ بھکتی بھی نہیں ہو سکتی۔ ایودھیا میں رام مندر اب رام کی رضا سے ہی بنے گا۔ کیونکہ اس کے لئے سنجیدگی سے کوشش نہیں ہو رہی، رام کا نام لینے والے اب رام سے دھوکہ کر رہے ہیں۔‘‘

اسپورٹس ٹیچر گورو تیاگی
اسپورٹس ٹیچر گورو تیاگی

نتن جاٹو (25 ) کے مطابق ایس سی سماج کے نوجوان ایودھیا نہیں گئے کیوںکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ معاملہ اب پوری طرح سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ نتن نے کہا ’’دلت سماج کے نوجوانوں میں رام مندر کے تئیں جوش نہیں ہے۔ ان میں پہلے کے مقابلے مہاتما بدھ کی مقبولیت بڑھی ہے اور وہ ایودھیا میں مہاتما بدھ کا مندر چاہتے ہیں۔‘‘

ہری مرچ کے کاروباری سنجے لوہان (36) کے مطابق ان کے پاس یہ سب سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ کیونکہ سیاسی لوگ بھگوان رام کا استعمال اپنے مفاد کے لئے کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق چناؤ نزدیک آنے پر رام کو یاد کرنے کا مطلب ہے کہ صرف اقتدار پر قابض ہونے کے لئے رام کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

سنجے نے کہا ’’رام مندر صرف ایک ایشو ہے اور اب اس ایشو کے لئے بی جے پی اور شیو سینا کے مابین زبردست رسہ کشی چل رہی ہے، لوگ پریشان ہیں کسان بے حال ہیں۔ لوگوں میں سب جب خوشحالی ہوتی تبھی مندر مسجد کے بارے میں سوچتا ہے۔ عام لوگوں کو اب اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں رہا، اس لئے ہم اب ایودھیا کیوں جائیں!‘‘

اسپورٹس ٹیچر گورو تیاگی (33) سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ایودھیا وہ بھی نہیں گئے۔ گورو کہتے ہیں ’’ایودھیا شیوسینا کے کارکنان گئے تھے اور وہ بھی واپس لوٹ گئے ہیں۔ یہ سب محض رسم ادائیگی کر رہے ہیں، شری رام کے تئیں اپنا عقیدہ ظاہر کرنے والے اندر سے پاکیزہ نہیں ہیں، ان لوگوں سے ہمیں کوئی امید نہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Nov 2018, 7:09 PM