زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں نے ’جیو‘ کا کیوں کیا بائیکاٹ؟

کسان نئے زرعی قوانین کے پیچھے اپنے لیے سازش دیکھ رہے ہیں، اسی لیے انھوں نے مودی حکومت کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ ورلڈ کے خلاف بھی مہم چھیڑ دی ہے۔

تصویر ویپن
تصویر ویپن
user

تنویر

کسان تحریک کے لیے بدھ کا دن انتہائی اہم خیال کیا جا رہا تھا، کیونکہ مودی حکومت جو ڈرافٹ کسانوں کو دینے والی تھی، اس کو لے کر کئی کسان تنظیمیں پرامید تھیں۔ لیکن جب ڈرافٹ یعنی تجویز کا مسودہ کسانوں کے ہاتھ لگا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس میں تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو باتیں مودی حکومت کے وزراء کئی دنوں سے جاری میٹنگوں کے دوران کہتے رہے ہیں، بس وہی تحریری شکل میں ان کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان لیڈروں نے ایک میٹنگ کی اور مودی حکومت کے ذریعہ پیش کردہ ڈرافٹ کو سرے سے مسترد کرتے ہوئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ نہ صرف جاری رکھنے کا اعلان کیا، بلکہ اس کو مزید تیز کرنے کا بھی اشارہ دے دیا۔

کسان لیڈروں نے میٹنگ کے بعد مودی حکومت کی تجویز کو تو مسترد کیا ہے، سب سے بڑی بات یہ رہی کہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اڈانی-امبانی کے خلاف بھی تحریک چھیڑ دی۔ کسانوں نے واضح لفظوں میں ’جیو‘ کا بائیکاٹ کر دیا اور کہہ دیا کہ جن مظاہرین کے پاس جیو کا نمبر ہے، وہ فوری طور پر اپنا نمبر دوسری کمپنی میں پورٹ کروائیں گے۔ انھوں نے جیو کے فون، سِم کارڈ اور دیگر مصنوعات سے دوری بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے لوگوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ سرکاری کمپنیوں کے مصنوعات استعمال کریں۔


کئی لوگوں کے ذہن میں یہ بات گشت کر رہی ہے کہ مودی حکومت کے خلاف سڑکوں پر جمع کسان آخر اڈانی-امبانی کے خلاف کیوں کھڑے ہو گئے۔ دراصل یہ اچانک نہیں ہوا ہے، بلکہ کارپوریٹروں کے خلاف تو کسان پہلے سے ہی آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن جب انھوں نے یہ دیکھا کہ مودی حکومت نے کارپوریٹروں کے حق میں فیصلہ لیتے ہوئے کسانوں کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے تو، کسان لیڈروں نے بھی کارپوریٹروں کے خلاف اپنی جنگ چھیڑ دی۔

کسان لیڈروں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریلائنس اور اڈانی گروپ کا باضابطہ نام لیتے ہوئے کہا کہ ان کی چیزوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ کسانوں نے ریلائنس اور اڈانی گروپ کے ہر اسٹور، مال اور سروسز سے دوری اختیار کرنے کا عزم ظاہر کر دیا ہے۔ کسانوں کی ناراضگی ان کارپوریٹ کمپنیوں سے اس لیے ہے کیونکہ یہ کمپنیاں زرعی شعبہ میں قدم رکھ چکی ہیں اور اس سے کسانوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ ’جیو کرشی‘ کے نام سے ایک ایپ بھی منظر عام پر آ چکا ہے جو ’کھیت سے پلیٹ‘ تک سپلائی چین تیار کرے گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے 77 فیصد فصل براہ راست کسانوں سے خریدتی ہے۔ مظاہرین کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قانون اس طرح سے بنائے گئے ہیں کہ اس سے ایسے (جیو کرشی جیسے) بڑے کاروباریوں کو فائدہ ہوگا۔


قابل ذکر ہے کہ کسان مخالف زرعی قوانین کی وجہ سے ہی مرکزی حکومت میں وزیر رہیں اکالی دل کی ہرسمرت کور بادل نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بعد میں پارٹی نے بھی این ڈی اے حکومت سے حمایت واپسی کا اعلان کر دیا تھا۔ استعفیٰ کے بعد کئی مرتبہ بیان دیتے ہوئے ہرسمرت کور نے ریلائنس جیو کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ کس طرح یہ کارپوریٹ کمپنیاں کسانوں کو نقصان پہنچائیں گی۔ ایک بار اکالی دل لیڈر نے کہا تھا کہ ’’ایک کسان نے ہمیں مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’جیو آیا، اس نے ہمیں مفت فون دیے۔ جب سب نے یہ فون خرید لیے اور ان پر منحصر ہو گئے تو مقابلہ ختم ہو گیا اور جیو نے قیمت بڑھا دی‘۔ کارپوریٹس بالکل یہی (زرعی شعبہ میں) کرنے والے ہیں۔‘‘

اس طرح کی کئی مثالیں کسان مظاہرین کے پاس موجود ہیں، اسی لیے انھوں نے اپنی تحریک اس وقت تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک کہ تینوں سیاہ زرعی قوانین واپس نہیں لے لیے جاتے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی گزشتہ دنوں زرعی قوانین کو اڈانی-امبانی کو فائدہ پہنچانے والا قانون بتاتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا تھا۔ انھوں نے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’’اڈانی-امبانی قانون رَد کرنے ہوں گے۔ اور کچھ بھی منظور نہیں۔‘‘ ظاہر ہے کسان نئے زرعی قوانین کے پیچھے اپنے لیے سازش دیکھ رہے ہیں، اسی لیے انھوں نے مودی حکومت کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ ورلڈ کے خلاف بھی مہم چھیڑ دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔