انسان کی پوری تہذیب سوال و جواب کی کہانی ہے: گوہر رضا
خدا کے پیدا ہونے سے لے کر کائنات کے پیدا ہونے تک کے بارے میں انسان سوال کرتا ہے۔ سائنس 'کیسے' کا جواب دیتا ہے، مذہب 'کیوں' کا۔
'ساہتیہ آج' تک کے پہلے دن 'مِتھ اور سائنس' سیشن میں سائنس داں اور مصنف گوہر رضا مہمان بن کر آئے۔ انہوں نے کتاب 'جذبوں کی لَو تیز کروں' اور 'مِتھ اور سائنس' لکھی ہے۔ انسان کتنا چھوٹا ہے یہ بتانے کے لیے گوہر صاحب نے کچھ اس طرح سے ایک کہانی سنائی۔۔۔
یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہم نے جہاں تک کوشش کی، سائنس دانوں نے آواز لگائی، چیخ کر پکارا، کیا کوئی پڑوسی ہے ہمارا؟ سائنس کہتا ہے کہ بہت پڑوسی ہو سکتے ہیں، لیکن ملا کسی کو نہیں۔ سائنس کے مطابق ہم اسپیشل بھی ہیں، نہیں بھی ہیں۔ انسان پیدا ہوتا ہے، بڑا ہوتا ہے، تجربہ یہ ہے کہ انسان اپنا تجربہ بڑھاتا ہے۔ تعلیم حاصل کرتا ہے، تعلیم کا دائرہ بڑھاتا ہے لیکن ہمیں اب تک نہیں پتہ کہ کائنات کے کسی کونے میں کیا ہو رہا ہے، جو سب سے بڑا سوال ہے۔ (یہ بات انہوں نے ایلین تہذیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہی)۔
گوہر رضا نے رِگ وید کا ذکر کرتے ہوئے اس میں لکھی رِچاؤں کا ہندی ترجمہ کیا
اس کائنات کی شروعات میں ایسا وقت تھا،
جب وقت ہی نہیں تھا۔
ایسا وقت تھا، جب اندھیرا تھا، نہ روشنی تھی
رِگ وید میں جائیں تو وہ کہتی ہے کہ کسے پتہ، کسے خبر یہ سب کیسے شروع ہوا۔ شاید دیووں کو ہو۔ دیو کائنات بننے کے بعد آئے۔ شاید خالق کو پتہ ہو، شاید اسے بھی نہ پتہ ہو۔
پھر گوہر صاحب نے کہانی بتائی کہ کیسے کائنات کے آگے انسان چھوٹا سا ہے۔۔۔
کشش ثقل تھا۔ چار فورس ملے۔ پارٹیکلس اور اینٹی پارٹیکلس بنے۔ یہ پیئر میں پیدا ہوتے ہیں۔ قریب آئے تو ایک دوسرے کو ختم کر دیتے ہیں۔ بے حد زیادہ پریشر میں۔ بے حد زیادہ ٹمپریچر میں۔ یہ پھیل بھی رہا تھا۔ تقریباً کچھ وقت کے بعد میٹر اس رسہ کشی میں جیت گیا۔ اس جیت کی وجہ سے پورے کائنات کی تخلیق ہوئی۔ پھر ذرات پیدا ہوئے۔ ہائیڈروجن ہیلیم میں بدلا۔ اس کے بادل پھیلنے لگے۔ درجہ حرارت کم ہونے لگا۔ غبار سکڑنے لگے۔
کشش ثقل کی وجہ سے ٹکرائے اور بنے تارے۔ 100 نوری سال تک کائنات پھیل چکا تھا۔ یہ تارے قریب آئے۔ قریب آنے کے بعد گیلیکسی بنیں۔ کہکشائیں۔ کروڑوں کہکشائیں۔ ایک خوبصورت کہکشاں۔ اس کے کگار پر ایک خوبصورت تارا۔ اس کے کنارے گھومتے ہوئے 9 ننھے گیند۔ اس میں ایک خاص گیند، نیلا اور ہرا۔ یعنی ہماری زمین۔ جس پر کرہ ارض کی لیئر ہے۔ اس میں کئی زمین کے ٹکڑے، جس پر ایک خاص زمین کا ٹکڑا، اس میں کئی ملک۔ ان ملکوں میں ایک خاص ملک۔ اس ملک میں کئی شہر، ان میں ایک خاص شہر، اس میں کئی بستیاں، اس میں ایک خاص بستی، جس میں ایک خاص عمارت (اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے) جس میں ایک سائنس داں آپ کو ایک کہانی سنا رہا ہے۔
سوال 'کیا دو سیکنڈ کا انسان 24 گھنٹے کا انسان بنے گا۔۔۔ کیا یہ وائرس ہے؟' پر گوہر رضا نے کہا کہ گزشتہ 30 سے 40 برسوں میں میرا جو تجربہ ہے، یہاں کوئی ایسا نہیں ہے جو 30 سال تک لگاتار ہر کمبھ کے میلے میں گیا۔ وہاں لوگوں سے بات کی۔ وہیں پیدا ہوا ہوں میں۔ ساحل کے پاس۔ ایک آدمی سوال پوچھتا ہے۔ سوالوں کے جواب ہوتے ہیں اس کے پاس۔ وہ ہر جواب کو پرکھتا ہے۔ مثال یہ ہے کہ یورپ میں جو فوکس رہا، وہ کمیونکیشن آف سائنس کو لے کر۔
پلان تھا کہ وہاں انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ سائنٹفکلی لٹریٹ اور سائنٹفک اِللٹریٹ۔ انسان اپنے بارے میں۔ اپنے آس پاس کے بارے میں۔ سوال پوچھتا ہے اس لیے انسان وائرس نہیں ہے۔ یہ سوال پوچھنے کا عمل کب شروع ہوا، مجھے نہیں پتہ۔ انسان دیگر جانوروں کے مقابلے میں سوال پوچھتا ہے۔ انسان لگاتار کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو انسان کی پوری تہذیب سوال و جواب کی کہانی ہے۔
زراعت بڑی تبدیلی لے کر آئی۔۔۔ جب انسان کو ذاتی طور پر احسا ہوا۔
ایک بڑی تبدیلی آئی۔ زراعت شروع کی۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ یہ میرا کھیت ہے، یہ میرا ہے، میرا گھر ہے، میرے بچے ہیں، لیکن کئی نظریات نے بھی جنم لیا۔ جو یہ کہتی ہیں کہ سارے انسان برابر ہیں، لیکن کچھ کہتی ہیں کہ سارے انسان برابر نہیں ہیں۔ اونچ نیچ، کالا-گورا، سوشل ایوولیوشن کی بات۔ جائیداد کو لے کر بات ہوتی ہے۔ اصل میں یہ لوگ سماج کے لیے وائرس ہیں۔ یہ کائنات کے لیے وائرس نہیں ہیں۔
مذہبوں کی تقسیم۔۔۔ دنیا کے ہر کونے میں بڑھنے والا بچہ جب 9-10 سے 16 سال کے بیچ ہوتا ہے تو یہ سارے سوال پوچھتا ہے۔ ان کے جواب طرح طرح سے ملتے ہیں۔ اس پر تنازع ہوگا، ہے بھی، ہوتا بھی رہے گا۔ مذہب جواب دے رہا ہے کیوں۔ سائنس جواب دے رہا ہے کیسے۔ جب ان کا بٹوارہ ہوتا ہے، تب انسان دو بڑے سوال پوچھتا ہے، یہ کائنات، دھرتی، سورج، چاند کا نکلنا، انسانوں کا پیدا ہونا۔
یہ سب کس نے بنایا۔ یہ کیسے بنا۔ جب کیوں کی بات کرتے ہیں تب ہمیں ایسے سوچ کے ڈھانچے کی تخلیق کی طرف لے کر جاتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اسے بنانے والا کوئی ہے۔ دوسرا بڑا سوال ہے زندہ اور مردہ میں کیا فرق ہے۔ کوئی زندہ کیسے ہوتا ہے اور کوئی مر کیسے جاتا ہے۔ بڑا خوبصورت اورل چیلا جواب ہے۔ روح ہوتی ہے، جب تک یہ جسم میں ہے، زندہ ہیں۔ جب یہ نکل گئی تو مر گئے۔ اس میں کئی کہانیاں گڑھ سکتے ہیں، جیسے وہاں کا کوئی تخلیق کار ہے جس نے دنیا کو اپنی خواہش سے بنایا ہے۔ دونوں میں ایک دوسرے سے بات چیت ہو رہی ہے۔ خالق دھیرے دھیرے روح پر قابو کرنے لگتا ہے۔ روح کا اس سے مل جانا آخری گول ہو جاتا ہے۔ ان دونوں کا آپس میں تال میل ہے۔ ان کے اطراف جیسے جیسے کہانیاں بٹتی ہیں، تہذیب پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
افریقہ میں کہانی ہے پانچ عنصر کی۔ ان پانچ عنصر سے انسان کی تخلیق کی۔ ہر مذہب کی کتابوں میں یہ کہانی الگ الگ طرح سے مل جائے گی۔ کہیں چار عنصر ہیں، کہیں پانچ عنصر ہیں۔ کیونکہ پیریوڈک ٹیبل نہیں آئی ہے۔ انہی پانچ عناصر سے یہ زندگی بن رہی ہے۔ این سی ای آر ٹی نے پھر سے پیریوڈک ٹیبل باہر نکال دیا ہے۔ شاید ہمارے بچوں کو پھر سے چار عناصر کی بات پڑھانا چاہتے ہیں۔
ہر کہانی کے پیچھے مِتھ ہے۔ لیکن انسان کا تجربہ دامن نہیں چھوڑ رہا ہے۔ تجربہ کیا ہے۔ ہوا میں چھوڑی چیز نیچے گرے گی۔ یہ تجربہ ہے۔ پھر سوال کھڑا ہوتا ہے کہ زمین کہاں ٹکی ہوئی ہے۔ کہیں وہ نندی کی سینگ پر ہے۔ کہیں وہ شیش ناگ کے پھن پر ہے، کہیں وہ کچھوئے کی پیٹھ پر ہے۔ ان سبھی بھرم کے پیچھے یہ کانسیپچوئل ماڈل ہے۔ ان سوالوں کے جواب میں۔ سائنس مسلسل کھوج کرتی ہے۔ بار بار سوال پوچھتی ہے۔ مذہب میں کانسیپچوئل ماڈل جم جاتے ہیں۔ یہ جن جاتی ہو یا کئی۔ ان کے بیچ ماڈلس جم جاتے ہیں۔ قبائل کے متھ ملتے ہیں۔
جب بھرم کوڈیفائی ہوتے ہیں۔ جب یہ کتابوں میں آتے ہیں۔ تب یہ جما ہوا سچ بن جاتے ہیں۔ تب یہ لوگوں کے اوپر، سوچ پر لگام لگانے لگتے ہیں۔ زیادہ مت پوچھو۔ جب سوال پوچھنے پر لگام لگتا ہے تب ہی پھر سے سائنس کی طرف جاتا ہے۔