قرآن مجید کی بے حرمتی کو بہادری سے روکنے والا شامی نوجوان محمد عمر

ناروے میں ایک اسلام مخالف تنظیم کی جانب سے قرآن کے نسخے کی بے حرمتی کو روکنے کے لئے ایک نوجوان محمد عمر نے اس بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کیا کہ انہیں عالم اسلام میں ایک ہیرو کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ناروے میں ایک اسلام مخالف تنظیم کی جانب سے قرآن کے نسخے کی سر عام بے حرمتی کو روکنے کے لئے ایک نوجوان محمد عمر نے اس بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کیا کہ انہیں عالم اسلام میں ایک ہیرو کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ نیز اس واقعہ کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر کافی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔

بہادری کا مظاہرہ کرنے والے نوجوان کی تفصیلات منظر عام پر آ گئی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بہادری اور جرأت سے روکنے والے 23 سالہ نوجوان کا نام عمر الیاس ہے اور اس کا تعلق شام سے ہے۔ کچھ ویب سائٹوں پر نوجوان کا نام عمر دھابہ بھی بتایا جا رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر نوجوان عمرالیاس کا نام ٹرینڈ کرنے لگ گیا جبکہ دنیا بھر کے مسلمان ان کی بہادری پر انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔


قرآن کے نسخے کی بے حرمتی کا واقعہ گزشتہ ہفتے ناروے کے شہر کرسٹینسانڈ میں سٹاپ اسلام آئزیشن آف ناروے (ایس آئی اے این) نامی تنظیم کے احتجاج میں اس وقت رونما ہوا جب اس تنظیم کے رہنما لارس تھورسن نے مقامی پولس کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قرآن کے ایک نسخے کو بھرے مجمع کے سامنے جلانے کی کوشش کی۔ اس دوران مجمع میں سے ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر تھورسن کو دھکا دیا اور ہاتھا پائی کی کوشش کی جس کے بعد پولس نے دونوں افراد کو حراست میں لے لیا۔

قرآن کی توہین ہوتے دیکھ وہاں موجود مسلمان نوجوان برداشت نہ کرسکے اور سبق سکھانے کے لیے اس تھورسن پر حملہ کردیا۔ پہلے ایک عمر الیاس رکاوٹیں توڑتا ہوا آگے بڑھا اور لارس تھورسن پر حملہ کردیا۔ اس اقدام سے مزید نوجوانوں کو ہمت ملی اور دیگر نوجوان بھی تھورسن پر حملہ آور ہوئے جس پر پولس اہلکار جو پہلے تماشا دیکھ رہے تھے، وہ آگے بڑھے اور حملہ آور نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جبکہ لارس تھورسن کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ کرسٹین سینڈ شہر میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے لیکن ناروے کی انتظامیہ نے نہ صرف اس اشتعال انگیز ریلی کی اجازت دی بلکہ قرآن کی توہین سے بھی نہ روکا۔


ناروے سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے توہین قرآن کی شدید مذمت کرتے ہوئے لارس تھورسن پر نفرت انگیز جرائم کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


ترکی کی حکومت نے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ناروے کی حکومت پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرنے کے لیے زور دیا۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ واقعے میں ملوث تھورسن کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ لارس تھورسن ایک عادی مجرم ہے اور حال ہی میں اوسلو میں اسلام مخالف اشتعال انگیز لٹریچر پھیلانے کے الزام میں 30 روز قید کی سزا بھگت چکا ہے۔

بی بی سی اردو کے مطابق پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی ناروے کے سفیر کو طلب کر کے ناروے کے شہر کرسٹیئنسانڈ میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پاکستان نے ناروے کے سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے اس کارروائی کی مذمت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے دنیا بھر میں ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ’اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس طرح کے اقدامات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘


ناروے میں اسلاموفوبیا کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل رواں برس ستمبر میں ناروے میں ایک نوجوان نے ایک مسجد پر حملہ کیا تھا، تاہم ایک ادھیڑ عمر شخص اسے بروقت روکنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Nov 2019, 2:14 PM