جھارکھنڈ: ’کبھی کبھی لگتا تھا جیسے گلے سے خون بہہ رہا ہے‘، جیت کے بعد وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے دیا پہلا انٹرویو
وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے کہا کہ ’’انڈیا اتحاد کو ریاستی حکومت کی ’مئیاں سمان یوجنا‘ کا بھی فائدہ ملا۔ دراندازی اور ہندوتوا سمیت بی جے پی کے تمام متنازعہ نعروں پر ہمارے ترقیاتی نعرے حاوی ہو گئے۔‘‘
جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب کا نتیجہ برآمد ہو چکا ہے اور انڈیا اتحاد نے 56 سیٹوں پر جیت کا پرچم لہرا دیا ہے۔ 81 اسمبلی سیٹوں والی اس ریاست میں انڈیا اتحاد کی پارٹیاں جے ایم ایم نے 34، کانگریس نے 16، آر جے ڈی نے 4 اور سی پی آئی (ایم ایل) نے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کا سہرا ہیمنت سورین کی سیاسی دور اندیشی کو دیا جا رہا ہے۔ جب ووٹوں کی گنتی جاری تھی اور انڈیا اتحاد واضح اکثریت حاصل کرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا، تبھی وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے معروف روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ کو پہلا انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے انتخابات کے دوران پیش آنے والے مسائل اور چیلنجز پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ انتخابی تشہیر کے دوران کئی بار ایسا محسوس ہوا جیسے گلے سے خون بہہ رہا ہے۔
ہیمنت سورین نے جھارکھنڈ میں ملی جیت کا اصل حقدار جھارکھنڈ کی عوام کو بتایا، جنہوں نے انہیں ایک بار پھر خدمت کرنے کا موقع دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ یہ انتخاب بہت مشکل ہونے والا ہے، اس لیے ہم نے بڑے پیمانے پر تیاری کر رکھی تھی۔ ہم عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہے۔ اس جیت میں انہوں نے اپنی اہلیہ کلپنا سورین کی محنت کا بھی ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انڈیا اتحاد کو ریاستی حکومت کی ’مئیاں سمان یوجنا‘ کا فائدہ بھی ملا۔ بی جے پی کی پولرائزیشن والی سیاست پر حملہ کرتے ہوئے ہیمنت سورین نے کہا کہ دراندازی اور ہندوتوا سمیت بی جے پی کے تمام متنازعہ نعروں پر ہمارے ترقیاتی نعرے حاوی ہو گئے۔ انہوں اپنے والد شیبو سروین کا بھی شکریہ ادا کیا کہ ان کی وجہ سے قبائلی ووٹوں کی تقسیم نہیں ہوئی، اور اس کا براہ راست فائدہ انڈیا اتحاد کو ملا۔
انٹرویو کے دوران جب ہیمنت سورین سے پوچھا گیا کہ آپ نے ووٹروں کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کیا، تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے ہوم ورک پہلے ہی کر لیا تھا، کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ لڑائی بہت مشکل ہونے والی ہے۔ زمینی سطح پر کام کرنے کے لیے ہم نے ایک ٹیم تیار کر رکھی تھی۔ اچھی ٹیم ورک تھی، ہم اپنے پیغامات لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ ویسے بھی آپ نے پارلیمانی انتخاب میں دیکھا تھا کہ ہماری ریاست میں کس طرح کے پیغامات پھیلائے جا رہے تھے۔ میں اس وقت جیل میں تھا۔ اگر میں اس وقت بھی باہر ہوتا تو پارلیمانی انتخاب کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ اس وقت بھی کلپنا سورین نے ’ون مین‘ آرمی کی طرح انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس بار تو ہم لوگ ’ایک سے بھلے دو‘ تھے۔ اس بار کا انتخاب تھوڑا مشکل ضرور تھا، لیکن ہم نے جی توڑ محنت کی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘‘
پورے انتخاب کے دوران بی جے پی کی جانب سے ہندوتوا، دراندازی اور ہندو-مسلم منافرت کی کوشش کے سوال پر ہیمنت سورین نے کہا ’’دیکھیے یہ ’مَین ٹو مَین تِھنکنگ‘ ہے، لوگ کن کی باتیں سنتے ہیں اور کن کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے اور عوام کے درمیان استاذ اور طالب علم کا رشتہ ہے۔ کلاس کے اساتذہ اور طلباء کے درمیان بہت اچھی ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ ہم پچھلے 5 سالوں سے ریاست کو سنبھال رہے ہیں، اس لیے لوگوں نے ہمیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہ علاقائی الیکشن تھا اس لیے اس میں بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو قومی سطح کے انتخاب میں عام طور پر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ ہم نے مخالفین کے ہر سوال کا جواب دیا جو یہاں لوگوں کے اندر جھوٹ اور غلط باتیں پھیلا رہے تھے۔ ہم نے لوگوں کو بتایا کہ یہ لوگ کیا کہتے ہیں، کیا غلط کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کے ذریعے بھی لوگوں کو بہت ساری جانکاریاں مل جاتی ہیں۔‘‘
وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین سے جب یہ پوچھا گیا کہ انتخاب کے دوران وہ ذاتی طور پر کس طرح کے دباؤ میں تھے، تو انہوں نے کہا کہ ’’ہم پر بہت زیادہ دباؤ تھا، اتنا کہ ہم آپ کو بتا بھی نہیں سکتے۔ ہماری حالت ایسی تھی کہ جب بھی ہم عوامی اجلاس کو خطاب کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ ہمارے گلے سے خون بہہ رہا ہے۔ ہم نے بے شمار سیاسی اجلاس کو خطاب کیا، اس دوران بہت تکلیفیں ہوئیں۔ میں نے ایسا انتخاب پہلے کبھی نہیں دیکھا اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ایسا انتخاب ہم دوبارہ کبھی نہیں دیکھیں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔