شاہ بانو اور شاعرا بانو، مسلم سماج کے دو تاریخی باب
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بالآخر آج تین طلاق پر پابندی عائد کر دی۔ 1980 کی دہائی میں شاہ بانو نے مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا اس کا ثمرہ شاعرا بانو کو ملا جنھوں نے شوہر سے طلاق ملنے کے بعد 2016 میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ ان دونوں کے درمیان عشرت جہاں، ذاکیہ سومن، عطیہ صابری وغیرہ کئی خواتین بھی تین طلاق کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہیں اور انصاف کی منتظر رہیں۔ لیکن شاعرا بانو کو ’انصاف‘ مل گیا۔ تین طلاق کی تاریخ میں شاہ بانو اور شاعرا بانو دو ایسی خواتین بن گئی ہیں جنھوں نے مسلم سماج میں اصلاحات کی داغ بیل ڈالی۔ انھوں نے تین طلاق کا ایشو اٹھا کر معاشرے میں بحث شروع کی جس کا انجام آج سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔
شاہ بانو کا معاملہ تقریباً 32 سالہ پرانا ہے لیکن اُس وقت یہ معاملہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ تھا جس نے پورے مسلم معاشرہ پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ دراصل مدھیہ پردیش کے اندور کی باشندہ اور پانچ بچوں کی ماں 60 سالہ شاہ بانو کو اس کے شوہر محمد احمد خان نے طلاق دے دیا تھا۔ انھوں نے نان و نفقہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ذیلی عدالت نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ سنایا لیکن شوہر کے اپیل کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ 23 اپریل 1985 کو شاہ بانو کی دلیل کے پیش نظر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا لیکن مسلم تنظیموں اور علمائے کرام نے اس فیصلے کے خلاف سخت آواز بلند کی اور بوٹ کلب دہلی میں ہزارہا مسلمانوں کا ایک مجمع اکٹھا کر یہ مطالبہ کیا کہ قانون کے ذریعہ شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ فیصلہ بدلا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے مسلم خواتین ترمیمی بل پاس کر شاہ بانو کیس میں دیے گئے فیصلے کو بدل دیا اور شاہ بانو کو نان و نفقہ کا حق نہیں مل سکا۔
بدلے ہوئے حالات میں شاعرا بانو کو وہ کامیابی مل گئی جس سے ہنوز مسلم خواتین محروم تھیں۔ شاعرا کو اس کے شوہر نے 2015 میں طلاق دیا تھا ۔ شاعرا نے جب 2016 میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تو اس نے بتایا کہ شوہر نے اس کو لگاتار نشیلی دوائیں دی جس سے اس کی یادداشت کمزور ہو گئی اور پھر اس کو طلاق دے کر مائیکہ بھیج دیا۔ لیکن شاعرا نے ایک نشست میں تین طلاق کو قبول نہیں کیا اور وہ عدالت پہنچ گئی۔ شاعرا نے اپنی عرضی میں مسلم پرسنل لاءکے اُس ایپلی کیشن ایکٹ 1937 کی دفعہ 2 پر سوالیہ نشان لگایا جن سے کثیر شادی، تین طلاق اور حلالہ جیسے رواج کو فروغ ملتا ہے۔ اتراکھنڈ کے کاشی پور میں رہنے والی شاعرا خوش قسمت ہیں کہ ان کی جدوجہد کامیاب ہو گئی اور اسی لیے انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد کہا کہ ’’میں فیصلے کا استقبال کرتی ہوں۔ مسلم خواتین کے لیے یہ تاریخی دِن ہے۔ مسلم سماج میں عورتوں کی حالت کو سمجھا جائے اور اس فیصلے کو مانا جائے۔ جلد سے جلد قانون بھی بنایا جائے۔‘‘
شاہ بانو اور شاعرا بانو اب دو تاریخی نام ہیں جو مسلم معاشرے میں اصلاح کے ساتھ ہمیشہ منسلک رہیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔