ہندوستان کی معیشت ابھی بہتر نہیں ہونے والی: ریٹنگ ایجنسیاں

گرافکس نَوجیون
گرافکس نَوجیون
user

قومی آواز بیورو

دنیا بھر کے ممالک کی ریٹنگ کرنے والی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ہندوستان کی معیشت پر جو منفی اثر پڑا ہے وہ ابھی جاری رہے گا۔ ان ایجنسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دو اقدام کا اثر کب تک رہے گا، یہ ابھی متعین نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ ایجنسیاں مانتی ہیں کہ یہ اثر قلیل مدتی ہے۔ اس سلسلے میں گھریلو اور بیرون ملکی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کا سبب نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ہی ہے۔ واضح رہے کہ ریٹنگ ایجنسیاں وہ ادارے ہیں جن کی دی گئی رینکنگ اور ریٹنگ کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے سرمایہ کار کسی ملک میں پیسہ لگاتے ہیں یا وہاں کاروبار کرتے ہیں۔

فچ ریٹنگ کے ڈائریکٹر (ساورِن اینڈ سپریشنلز گروپ) تھامس روکماکیر کا کہنا ہے کہ ’’نوٹ بندی کا مقصد کالے دھن پر قابو پانا تھا۔ لیکن نقدی کی کمی کے سبب اس سے جی ڈی پی نیچے گر گئی۔‘‘ ان کا کہنا ہے ’’دلیل یہ ہے کہ 99فیصد بینک نوٹ آر بی آئی (انڈین ریزرو بینک) کے پاس واپس آ گئے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کالے دھن کو مٹانے میں نوٹ بندی اثر انداز ثابت نہیں ہوئی ہے اور اس سے غیر منظم سیکٹر کا کاروبار متاثر ہوا۔‘‘

دوسری طرف کیئر ریٹنگز کی سینئر ماہر معاشیات کویتا چاکو نے بتایا کہ ’’نوٹ بندی ایک اہم تعمیری تبدیلی ہے جس سے ہندوستانی معیشت گزری ہے۔ اس کے سبب طلب اور فراہمی پر اثر پڑا اور پوری معیشت متاثر ہوئی۔‘‘ چاکو نے کہا کہ مالی سال 2016-17 کے جی ڈی پی کے سہ ماہی اعداد و شمار (اکتوبر-دسمبر) میں تیز گراوٹ درج کی گئی۔

چاکو کا کہنا ہے کہ یہ اہم بات ہے کہ ’’مالی سال 2016-17 کی تیسری سہ ماہی میں جی ڈی پی اضافہ کی شرح سال در سال کی بنیاد پر 7 فیصد سے گھٹ کر 6.1 فیصد رہی جب کہ مالی سال 2016-17 کی چوتھی سہ ماہی میں اس میں مزید گراوٹ درج کی گئی اور یہ 5.7 فیصد پر آ گئی جو گزشتہ پانچ سالوں کی سب سے بڑی گراوٹ ہے۔‘‘ لیکن چاکو مانتی ہیں کہ ’’جی ایس ٹی کو نافذ کرنے سے غیر منظم کاروبار کو منظم سیکٹر سے جوڑنے میں مدد ملے گی، کیونکہ یہ چھوٹی صنعتوں کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لائے گا۔‘‘

اسٹینڈرڈ اینڈ پووَرس (ایس اینڈ پی) گلوبل ریٹنگز کے ڈائریکٹر (کارپوریٹ ریٹنگ گروپ) ابھشیک ڈانگرا کا کہنا ہے کہ ’’ہم مانتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ اور زیورات کے سیکٹر کو چھوڑ کر زیادہ سیکٹرس میں نوٹ بندی کا مستقل اثر نہیں ہے۔‘‘ لیکن فچ کے ڈائریکٹر (مالی ادارہ) ساسوت گوہا نے کہا کہ بینکوں نے لکوئڈیٹی (نقدی جمع ہونے سے) میں اضافہ کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا۔ گوہا نے کہا کہ ’’نوٹ بندی سے بینکوں کی نقدی بڑھی، لیکن قرض دینے کا کاروبار کمزور ہے، اس لیے اس کا بینکوں کو فائدہ نہیں مل رہا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔