خاموش! حکومت کی تنقید کی تو خیر نہیں
وسندھرا راجے کی قیادت والی راجستھان کی بی جے پی حکومت نے اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کر دی ہے۔
راجستھان حکومت نے ایک تغلقی فرمان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی بھی سرکاری ملازم نے حکومت کی کسی پالیسی یا فیصلہ کی تنقید کی تو اس کی خیر نہیں۔ اس سلسلہ میں باقائدہ ایک سرکولر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ سرکولر میں کہا گیا ہے کہ ،’’ کچھ افسران/ملزمان کی طرف سے ضوابط پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے اور پریس اور سوشل میڈیا کے ذریعہ سے دیگر افسران اور ملازمین کے خلاف من گھڑت الزامات جاری کئے جا رہے ہیں ۔ ان کے اس غیر مناسب اور غیر اخلاقی فعل سے دفتر کی شبیہ کونقصان پہنچتا ہے۔‘‘
سرکولر میں خبر دار کیا گیا ہے کہ تمام افسران اور ملازمین یہ یقینی بنایئں کہ وہ عوامی طور پر کسی شخص ، کسی پارٹی یاکسی تنظیم کے خلاف بے بنیاد، غیر حقیقی، غیر مصدقہ، عزت اور وقار کو ٹھیس پہنچانے والے تبصرے نا تو کریں اور نہ ہی ان کو سوشل میڈیا پر شیئرکریں۔ ایسا نہ کرنے والے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔
راجستھان حکومت کے انتظامی سیکریٹری بھاسکر اے ساونت کی طرف سے یہ سرکولر تمام کمشنروں، ضلع مجسٹریٹوں اور پولس سپریٹنڈنٹوں کو بھیجے گئے ہیں۔ اس حکم نامہ کی ایک کاپی گورنر اور وزیر اعلی کو بھی بھیجی گئی ہے۔ سرکولر میں راجستھان سیول سروس اخلاقیات ضوابط 1971 کے اصول 3، 4 اور 11 کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اظہار رائےکی آزادی پر حملہ
راجستھان حکومت نے 12 اکتوبر 2017 کوجو فرمان جاری کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئین ہند کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہوئی ہے کیوں کہ اظہار رائے کی آزادی کے معنی حکومت یا کسی شخص کی تعریف کرنا قطعی نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اسے تحریر کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دراصل اظہار رائے کی آزادی کا مطلب ہی تنقید کا حق ہے کیوں کہ اس کے بغیر اظہار رائے غیر مکمل ہے۔
کامیشور پرساد بنام بہار حکومت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ملازمین حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ اتنا ہی نہیں آئین کی دفعہ 309 میں 4 اے جوڑا گیا جو صاف طور پر کہتا ہے کہ حکومت کے بنائے گئے اصولوں سے رضامندی ظاہر کرنے کے باوجود شخص اپنے بنیادی حقوق ریاست کو نہیں سونپ دیتا۔
ان تمام آئینی اور عدالتی فیصلوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ راجستھان حکومت کا یہ حکم نامہ آئین کی رو کے بر عکس ہے۔ جتنی بھی ملازمین اور افسران کی تنظیمیں ہیں وہ حکومت کی شان میں قصیدے پڑھنے کے لئے نہیں بنائی گئی ہیں بلکہ ان کا کام حکومت کی تنقید کرنا بھی ہے اور ان پر اس طرح کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی ۔راجستھان حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا سرکولر عیدی امین کے اس جملہ کی ترجمانی کرتا ہے، ’’ تمہیں بولنے کی آزادی تو ہے لیکن اس کے بعد تمہارا کیا ہوگا مجھے نہیں پتہ۔‘‘
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Oct 2017, 4:29 PM