مودی اور یوگی کے راج میں بیٹیوں کی پٹائی!
وزیر اعظم مودی نےوارانسی کو 1000 کروڑ کے منصوبوں کا تحفہ دیا ہے لیکن بی ایچ یو کے لئے ان کے جھولے سے کچھ نہیں نکلا اور یوگی کی پولس نے قانون کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے بیٹیوں پر لاٹھی چارج کیا۔
وارانسی۔ بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو ) میں کس طرح سے قانون و ضوابط کی دھجیاں بکھری گئیں، اس کی گواہی یہ ویڈیو دے رہے ہیں۔ قانون کے مطابق لڑیوں یا خواتین کے اوپر کوئی بھی قانونی یا پولس کارروائی کرنے میں خاتون پولس اہلکاروں کا ہونا لازمی ہے لیکن گزشتہ رات یعنی 23 ستمبر کی خوفناک رات کو بی ایچ یو میں پولس فورس میں کوئی بھی خاتون اہلکار نہیں تھی۔ بےرحمی سے مرد پولس اہلکاروں نے لڑکیوں کو کھینچا اور پٹائی کی۔ بتایا جا تا ہے کہ ایک طالبہ کی حالت ناز ک ہے اور کئی کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ طالبات کے ہاسٹلوں میں بھی پولس والے گھسے اور لڑکیوں کو مارا پیٹا جو کہ سراسر غیر قانونی ہے۔ لاٹھی چارج سے پہلے کوئی نوٹس کوئی تنبیہ نہیں دی گئی۔ ویڈیو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پولس اہلکار زمین پر بیٹھی لڑکیوں پر لاٹھی لے کر دوڑ رہے ہیں۔ بی ایچ یو ایک مقبول مرکزی یونیورسٹی ہے جہنا چھیڑ خانی اور نا زیبا حرکتوں میں بیٹھی طالبات کے ساتھ پولس ۔ انتظامیہ اس طرح ظلم ڈھا سکتے ہیں تو باقی ملک میں کیا کرتے ہوں گے سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے۔ جس پولس والے سے یہ پوچھ گیا کہ کیوں مارا تو اس کا جواب تھا،’’سڑک پر اتریں گی تو مار تو کھائیں گی۔ ‘‘
ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی بنارس پارلیمانی حلقہ انتخاب ےس نمائندہ ہیں اور اپنے حلقہ کو چمکانے کے لئے کروڑوں روپے (عوام کا پیسہ) خرچ کر رہے ہیں۔ 22 ستمبر 2017 کو اپنے دورے کے دوران بھی انہوں نے 1000 کروڑ روپے کے 17 منصوبوں کا ایک ساتھ افتتاح کیا۔ ٹھیک اسی وقت بنارس ہندو وشوودیالیہ (بی ایچ یو) کی سینکڑوں طالبات نے مین گیٹ کے باہر اس لئے دھرنا دیا ہوا تھا تاکہ اعلانوں کی جھڑی لگانے والے ان کے ایم پی اور ملک کے پی ایم اپنے قافلہ کے ساتھ یہاں آئیں اور ان کے مطالبات سنیں لیکن قافلہ نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو بی ایچ یو میں تاریخی لڑائی میں اتریں ہزاروں طالبات کی براہ راست مانگ سنائی نہیں دی جو زور زور سے چیخ رہی ہیں، ہمیں حفاظت چاہئے، ہمیں انصاف چاہئے، ہمیں آزادی چاہئے۔ یہ طالبات مطالبہ کر ہی ہیں کہ ان کے کیمپس کو چھیڑ خانی سے پاک کیا جائے۔ وہ مشتعل ہو کر سوال کر رہی ہیں کہ انتظامیہ انہیں حفاظت دینے میں کیوں ناکام ہے اور سکیورٹی کے نام پر 6 بجتے ہی کمروں میں جانے کے لئے کیوں کہا جاتا ہے؟ کیوں؟ کیوں ہم جائیں اور لڑکے گھومتے رہیں؟ یہ بات پری طرح سے ناقابل برداشت ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ اسٹریٹ لائٹ کیوں نصب نہیں کرواتا، سی سی ٹیوی کیمرے کیوں نہیں لگواتا؟
ان تمام مطالبات کو لے کر بی ایچ یو کی طالبات سڑکوں پر اتری ہوئی ہیں، بھوک ہڑتال پر بیٹھ رہی ہیں ، لیکن ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر مسلسل فعال رہنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ سوال ہے کہ بی ایچ یو کی طالبات کی ایسی کیا مانگ ہے جسے نہ وہاں کے وی سی سمجھ پا رہے ہیں نہ ہی پروکٹر اور نہ ہی وہاں کے رکن پارلیمنٹ نریندر مودی سن پا رہے ہیں۔ 22 ستمبر کی شام سے ان طالبات نے چکہ جام کر رکھا ہے اور بی ایچ یو کے مین گیٹ پر پوسٹر لگا دیا ہے، ’’ بچے گی بیٹی، تبھی تو پڑھے گی بیٹی۔‘‘ اسے براہ راست وزیر اعطم کے ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ نعرے سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔
بی ایچ یو کی بیٹیاں گہار لگا رہی ہیں کہ کیمپس میں ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ مطالبہ کیا 1000 کروڑ روپے کے 17 منصوبوں سے بھی بڑا ہے جسے نہ تو بی ایچ یو انتظامیہ اور نہ ہی یوگی سرکار اور مودی سرکار پورا کر پا رہی ہے۔
بی ایچ یو انتظامیہ کا طالبات کے تئیں یہ تعصبانہ رویہ طویل مدت سے نشانے پر ہے۔ گزشتہ شام جب 6 بجے ایک طالبہ کے ساتھ چھیڑ خانی کا واقعہ پیش آیا اور وہ شکایت کرنے گئی تو اس کی شکایت کو لے کر جو تاناشاہی اور پدر پرست رویہ اختیار کیا گیا اس نے طالبات کے غصہ کو ہوا دے دی۔ طالبات کی بلند ترین آواز ندھی کا کہنا ہے، ’’ بی ایچ یو انتظامیہ نے کہا کہ وہ شام 6 بجے کیوں باہر تھی۔ اس کے بعد انتظامیہ نے کہا کہ اب لڑکیوں کو شام 6 بجے تک اندر آنا ہوگا۔ ‘‘ اس کے بعد طالبات بڑی تعداد میں جمع ہو گئیں اور انتظامیہ سے سلامتی اور آزادی کا مطالبہ کرنے لگیں۔ پروکٹر بہت مجبوری میں آئے اور بغیر کوئی یقین دہائی کرئے چلے گئے۔ وائس چانسلر ندارت ہیں۔ صلح سمجھوتے کی بجائے لڑکیوں کی اس تحریک کو ختم کرنے کے سارے حربے انتظامیہ کی طرف سے استعمال کئے جا رہے ہیں۔
بی ایچ یو انتظامیہ گزشتہ کچھ وقت سے طالبات کے تئیں اپنے تعصبانہ رویہ کی وجہ سے کافی بدنامی کرا چکی ہے۔ ہاسٹل میں 7 بجے تک طالبات کی واپسی اور انہیں نان ویج نا پیش کیا جانا کچھ ایسے ہی فرمان ہیں جن سے پدر پرستی کی بو آتی ہے اور جن کی وجہ سے طلباء تحریک چلانے کو مجبور ہو گئے ہیں۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔