آج چندر شیکھر ہے تو کل کوئی اور ہوگا

اب یا تو ہمارے بچوں سے راسوکا ہٹے گا یا ہم مریں گے

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

سہارنپور: رات کے 11 بجے ہیں اور رام نگر نیا گاؤں میں اس وقت موبائل سے پتہ چلتا ہے کہ درجہ حرارت 15 ڈگری سلسیس ہے۔ اس سرد موسم میں ٹھٹھرتی اور خود میں سمٹتی 15-20 خواتین ایک شامیانے کے نیچے بیٹھی ہیں۔ نومبر کے شروعاتی دنوں میں اوس خطرناک ہوتی ہے۔ لیکن یہ شامیانہ ان عورتوں اور آسمان کے درمیان ایک پردہ کی طرح ہے۔ باہر سردی ضرور ہے لیکن اندر کا کلیجا سلگ رہا ہے۔’بھیم آرمی‘ کے سربراہ چندر شیکھر آزاد سے راسوکا ہٹانے کے مطالبہ کے ساتھ جمعہ کو 50 سے زیادہ عورتیں یہاں دھرنے پر بیٹھ گئی تھیں جن میں سے 4 خواتین بھوک ہڑتال پر ہیں۔ دن میں ان کے پاس میڈیا اور دہلی سے آئے کچھ سماجی کارکنان موجود رہے لیکن رات میں صرف میں ہوں۔ ان خواتین کی قیادت ببیتا کے ہاتھ میں ہے۔ ببیتا (45 سالہ) بھیم آرمی کی ضلعی صدر کمل والیہ کی ماں ہے۔ کمل والیہ کو چندر شیکھر کے ساتھ ہی گرفتار کیا گیا تھا اور اسے چندر شیکھر کا دایاں بازو سمجھا جاتا ہے۔

’بھیم آرمی‘ کے سربراہ چندر شیکھر آزاد پر سے راسوکا ہٹانے کے مطالبہ کو لے کرسرد رات میں بھی مظاہرہ پر بیٹھی دلت خوتین۔
’بھیم آرمی‘ کے سربراہ چندر شیکھر آزاد پر سے راسوکا ہٹانے کے مطالبہ کو لے کرسرد رات میں بھی مظاہرہ پر بیٹھی دلت خوتین۔

رام نگر سہارنپور سے شبیر پور کی جانب جا رہی سڑک کا پہلا گاؤں ہے۔ اب وہ میونسپل کارپوریشن کا حصہ ہے اور پہلی بار اپنا میئر منتخب کرے گا۔ بھیم آرمی کا سب سے زیادہ اثر اسی گاؤں میں ہے۔ 9 مئی کو سب سے زیادہ تشدد اور آتشزدگی بھی اسی گاؤں میں ہوئی تھی۔ گاؤں میں اکثر 6 بجے رات ہو جاتی ہے، لوگ گھروں کے دروازے بند کر لیتے ہیں لیکن اس گاؤں کے دلت اب سو نہیں رہے ہیں۔ ببیتا کی آنکھیں رات میں بھی چمک رہی ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں ’’کیا نیند نہیں آتی آپ کو!‘‘ ببیتا کہتی ہیں ’’نیند! نیند نہیں آتی اب۔‘‘ ببیتا ہمیں بتا رہی ہیں کہ نیند آنے کی اب کوئی وجہ نہیں بچی ہے۔ وہ نانوتا کی رہنے والی ہیں، دلت ہیں۔ پینتالیس سال سے زیادہ ہو گئے، کسی سماج پر اتنا ظلم کبھی نہیں دیکھا۔ نہ مائیکہ میں نہ سسرال میں۔ صرف بڑوں سے سنتے تھے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ کیسی حکومت ہے۔ دلتوں کے خلاف زیادتی ہو ئی اس سے بڑی مثال ہم نے نہیں دیکھی۔ چندر شیکھر کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ وہ جوان ہے۔ اپنے سماج پر ناانصافی دیکھ کر اس کا خون کھول رہا تھا۔ اسے اپنی بہن بیٹیوں کی عزت سے لگاؤ تھا۔ اس نے کیا غلط کیا؟ ۔ حکومت تو سب کی ہوتی ہے۔ راجپوتوں نے کھلے طور پر ظلم کیا۔ شبیر پور میں گھر جلا دیے، دلتوں کو تلواروں سے کاٹ دیا۔ چندر شیکھر راجپوتوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا تھا، وہ غلط نہیں تھا۔ آج ہمارے لڑکوں کو دہشت گرد بنا دیا، وہ انصاف مانگ رہا تھا۔ آج اس سے ملنے نہیں دیتے۔ عدالت اسے ضمانت دے رہی ہے، حکومت راسوکا لگا رہی ہے۔ چندر شیکھر کو میرٹھ لے کر جانے کے پیچھے سازش ہے۔ یہ لوگ اسے مارنا چاہتے ہیں۔ ببیتا کہہ رہی ہیں کہ وہ اس وقت تک دھرنے سے نہیں اٹھے گی جب تک چندر شیکھر سے راسوکا نہیں ہٹا لیا جاتا۔ ان کے ساتھ کرتی، پھول متی اور وملا دیوی بھی بھوک ہڑتال پر ہیں۔ رات کے تقریباً 12 بجنے والے ہیں اور پولس کے کچھ لوگ لکڑی لے کر آئے ہیں۔ دراصل یہاں موجود تقریباً 20 عورتوں میں سے 7-8 بزرگ ہیں۔

اس موقع پر وملا کہتی ہے کہ ’’اکثر کمزور اور بھوکے لوگ ٹھنڈ سے مر جاتے ہیں، سرکار نے لکڑی بھیجی ہے کہ ہم زندہ رہیں۔‘‘ 65 سالہ کیلاشو کہتی ہیں کہ وہ راجپوتوں کے کھیت میں کام کرتی تھی۔ وہ اوپر چارپائی پر بیٹھتے تھے، ہم نیچے۔ روٹی ہمارے ہاتھ پر ایسے ڈالتے تھے کہ کہیں ہمارا ہاتھ ان سے چھو نہ جائے۔ ہم ان کے ظلم کا جواب کیسے دے سکتے ہیں۔ ہم تو آج بھی جی بھر کر کھا نہیں پاتے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ہمارے بچے پڑھ گئے ہیں، شہر میں آتے جاتے ہیں، وہ غلامی نہیں کرنا چاہتے۔ 54 سالہ پھول متی بتاتی ہیں کہ چندر شیکھر کو اتنا پریشان کیا گیا ہے کہ اب کوئی دلتوں کی مدد کے لیے کھڑا نہیں ہوگا۔ ببیتا کو مایاوتی پر بھی غصہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بہن جی اس زیادتی پر خاموش کیوں ہیں۔ یہاں ان کے لیڈر بھی خاموش ہیں، کوئی کچھ نہیں بول رہا۔ یہاں ممبر اسمبلی ہمارے ووٹوں سے بنتے ہیں، انھیں چندر شیکھر جیسے لڑکوں سے ڈر لگتا ہے کہ جگہ چھن جائے گی۔

شبیر پور میں بھی خواتین رات میں دھرنے پر بیٹھی ہیں۔ 35 سالہ سویتا کہتی ہیں کہ اب راجپوت ہمیں پیٹنے تو آتے نہیں لیکن ہم لوگ جب سے یہاں دھرنے پر بیٹھے ہیں وہ ہمیں دیکھ کر ہنستے ضرور ہیں۔ رام نگر کی راج کماری (38 سال) کہتی ہیں کہ سب سرکاری کھیل ہے۔ ہماری کوئی بھی نہیں سن رہا۔ بابا صاحب کے آئین نے ہمیں برابری کا حق دیا ہے لیکن یہاں کہیں برابری نہیں ہے۔ چندر شیکھر تو ایک مثال ہے، اس پر ظلم اس کی’ ذات ‘کی وجہ سے ہوا۔

آج چندر شیکھر ہے تو کل کوئی اور ہوگا

آپ دیکھ لیجیے۔ آج چندر شیکھر ہے، کل کوئی اور ہوگا۔ جو بھی ظلم کے خلاف بولے گا وہ کچل دیا جائے گا۔ بزرگ کہتے ہیں ہم صدیوں سے یہ سب برداشت کر رہے ہیں لیکن کچھ سالوں سے تبدیلی آئی تھی، اب پھر ویسا ہی ہو گیا ہے۔ 70 سالہ شملا دیوی بھی رات میں دھرنے پر ہیں۔ دھرنا و مظاہرہ کے شروع ہونے سے اب تک وہ عزم مصمم کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ ہم سے کہتی ہے ’’جب تک مھارا للّا گھر نہ آویں گے تب تک ہم یہیں رہیں گے اب چاہے مر جاوے۔‘‘

رام نگر میں یہ خواتین روی داس آشرم میں ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ سرکار غیر جانبدار نہیں ہے۔ ویرمتی کہتی ہیں ’’یو سرکار جنے کیا کر کے مانے گی۔ اسے مھارے جاکت (بچوں) کے علاوہ کچھ نئی دِکھ رہا۔‘‘

چندر شیکھر اس وقت میرٹھ جیل میں ہے جہاں اس کی حالت خراب ہے۔ سہارنپور میں دلتوں میں بے انتہا ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ شبیر پور اور رام نگر دونوں جگہ سینکڑوں خواتین دھرنے پر ہیں جن میں چار پانچ خواتین بھوک ہڑتال پر ہیں۔ ان لوگوں کا مطالبہ ہے کہ بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر سے راسوکا ہٹایا جائے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔