جموں و کشمیر: ہڑتال اور مواصلاتی پابندی سے ہزاروں نوجوان بے روزگار
وادیٔ کشمیر میں ایک ماہ سے جاری نامساعد حالات اور مواصلاتی خدمات پر عائد پابندی کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ہزاروں نوجوان بے روز گار ہو گئے ہیں۔
سری نگر: وادی کشمیر میں ایک ماہ سے جاری نامساعد حالات، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی خدمات پر عائد پابندی کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے، بے روز گار ہوئے ہیں۔ مواصلاتی کمپنیوں، فیکٹریوں، کارخانوں، نجی بنکوں، ای بزنس کمپنیوں اور دکانوں پر کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین جن میں سے بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے، اپنے معمول کے کام سے محروم ہوگئے ہیں اور گھروں میں بیٹھ کر اپنے اہل خانہ کے لئے باعث فکر مندی بن گئے ہیں۔
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جو کہ ایک مواصلاتی کمپنی میں کام کرتے تھے، نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ سے لگاتار گھر میں بیٹھنے سے وہ نہ صرف بے روزگار ہوچکے ہیں بلکہ ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہوگئے ہیں۔انہوں نے اپنی روداد اس طرح بیان کی: 'میں گھر میں بیٹھا ہوں، موبائل خدمات لگاتار بند ہیں، میں تقریباً بے روزگار ہوگیا ہوں، اب میں ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہورہا ہوں جس کی وجہ سے میرے گھر والے اب میری نوکری کی فکر سے نہیں بلکہ میری صحت کی وجہ سے متفکر ہوئے ہیں'۔
آٹو موبائل سیکٹر میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ نوکری سے محروم ہونے سے میرے مالی مشکلات کافی حد تک بڑھ گئے ہیں۔انہوں نے کہا: 'میں پانچ اگست سے گھر پر ہوں، کمپنی والوں نے میری چھٹی کی ہے، آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے گھر میں حالات ایسے ہیں کہ میرے بچوں اور والدین کو فاقے لگ سکتے ہیں'۔
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جو کہ شہرہ آفاق سیاحتی مقام گلمرگ کے ایک ہوٹل میں کام کرتے تھے، نے بتایا کہ اگست کے پہلے ہفتے میں سیاحتی سرگرمیاں ٹھپ ہوجانے کے ساتھ ہی ان کی چھٹی کی گئی اور اب وہ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا: 'میں گلمرگ کے ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ لیکن اگست کے پہلے ہفتے میں ایڈوائزری جاری ہونے کے ساتھ ہی گلمرگ کے ہوٹلوں میں کام کرنے والے تقریباً تمام ملازمین کی چھٹی کی گئی۔ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو مجھے کسی دوسری ریاست کا رخ کرنا پڑے گا'۔
سری نگر کے ایک معروف شو روم میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ وادی کے موجودہ حالات میری غریبی کا موجب بن گئے ہیں۔انہوں نے کہا: 'وادی میں ایک ماہ سے تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہیں، میں ایک شو روم میں کام کرکے اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا تھا لیکن مجھے فی الحال نکال دیا گیا ہے جس کے باعث میری غریبی میں اضافہ ہوا ہے'۔
ادھر وادی میں تجارتی سرگرمیاں مسلسل ٹھپ رہنے کے باعث کئی نوجوان روزی روٹی کمانے کے لئے بیرونی ریاستوں کا رخ کررہے ہیں۔ مدثر احمد وانی نامی ایک نوجوان نے کہا کہ گھر کا چولھا جلانے کے لئے میں اب جموں یا پنجاب جاؤں گا۔ انہوں نے کہا: 'پانچ اگست سے بے کار ہوں، ایک پیسہ بھی نہیں کمایا ہے، گھر کے اخراجات ختم ہورہے ہیں اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں مزدوری کرنے کے لئے جموں یا پنجاب جاؤں گا تاکہ گھر میں چولہا جلانے کے لئے وہاں چار پیسے کما سکوں'۔
محمد امین نامی ایک تعلیم یافتہ نوجوان نے کہا میں اب بیرون ریاست جاکر کہیں کام ڈھونڈوں گا تاکہ گھر والوں کی روزی روٹی کا انتظام کر سکوں۔ ان کا کہنا تھا: 'میں ایک مقامی فیکٹری میں کام کررہا تھا اب چونکہ وہ بند ہے لہذا میں بھی بے روز ہوگیا ہوں، میں اب بیرون ریاست جاکر کہیں اپنے لئے کام تلاش کروں گا تاکہ گھر والوں کی کفالت کرسکوں'۔ ڈاکٹر واحد نامی ایک ماہر نفسیات و عمرانیات نے کہا کہ نوجوان بے روزگار ہونے سے مختلف نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہوسکتے ہیں جس کے بھیانک سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا: 'بے روز گار ہونے اور گھروں میں ہی محصور ہونے سے نوجوان مختلف النوع نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں جن سے نہ صرف ان کی صحت بگڑ سکتی ہے بلکہ اس کے سماج پر بھی انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کا حل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن سکتا ہے'۔موصوف ڈاکٹر نے کہا کہ بے روزگاری ایک سماج کی سب سے بڑی بیماری ہے اور کئی موذی سماجی بیماریوں کی موجب بھی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ ایک ماہ سے تجارتی سرگرمیاں اور مواصلاتی نظام مسلسل ٹھپ ہے جس سے تمام شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں کو از حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Sep 2019, 5:10 PM