بہروں کا علاقہ ہے ، ذرا زور سے بولو
نئی دہلی : ’’گوری ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظریہ تھی اور نظریہ کا قتل کوئی فرد نہیں کرتا، نظریہ کا قتل ایک نظریہ کرتا ہے، ایک نظام کرتا ہے۔ کس شخص نے قتل کیا اس کی شناخت کرنا تو پولس کا کام ہے اور وہ پولس کرے گی لیکن کس نظریہ اور نظام نے گوری کا قتل کیا اس کی شناخت کرنا میرا اور آپ کا کام ہے اور اگر ہم اس کے بارے میں چپ رہیں گے تو اپنے بچوں کو منہ نہیں دکھا پائیں گے۔ اس ملک کی بنیاد کو بچانے کے لئے متحد ہو کر ایک شہری کی حیثیت سے ہمیں لڑنا ہوگا‘‘ ان خیالات کو یوگیندر یادو نے الفاظ ضرور بخشے ہیں لیکن پریس کلب میں گوری لنکیش کے قتل کے خلاف احتجاج درج کرانے جمع ہوئے تمام صحافیوں کے جذبات کچھ ایسے ہی تھے۔ غم جو اب غصہ میں بدل گیاہے اس غصے کے ساتھ بڑی تعداد میں صحافیوں نے پریس کلب میں اپنا احتجاج درج کرایا ۔ پریس کلب آف انڈیا، دہلی میں موجود ہر صحافی کے لب پر بس ایک ہی بات تھی کہ بس اب بہت ہو چکا اور نہ جانے کب کس کا نمبر آ جائے اس لئے متحد ہوکر سامنے سے لڑنا ہوگا اور دشمن کی ہر چال کا جواب دےکر گوری کی شہادت کو رائگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
ہندی صحافت کی دنیا کا معززنام مرنال پانڈے نےگوری کے قتل پر غم کا اظہار کرتے ہوئے آگے کی حکمت عملی پر کہا ’’جب ہم شطرنج کھیلتے ہیں تو شطرنج کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم اپنی چال سے پہلے مخالف کی چال کو سمجھیں۔جو میں سمجھتی ہوں دشمن کی چال پہلے ہمیں کئی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی ہوگی پھر ہمیں جذباتوں میں بہایا جائے گا اس لئے میری آپ سے درخواست یہ ہے کہ اس مسئلہ کو جذباتی مت ہونے دیجئے گا۔ اگر آپ کو اپنے پیشے کے بنیادی اصولوں سے پیار ہے تو ان بساطوں سے بچ کر متحد ہو کر لڑئیے گا ‘‘۔
سینئر صحافی پرانجے گوہا نے کہا ’’اب خاموش رہ کر کام نہیں چلے گا اب ہمیں بولنا پڑے گا۔ ہم گوری کی موت کو رائگاں نہیں جانےدیں گے۔ اگر ہم اس کو یاد نہیں رکھیں گے تو ہم چھوٹے ہو جائیں گے۔ میں یہی کہوں گا کہ بزدل سو مرتبہ مرتا ہے لیکن بہادر صرف ایک ہی مرتبہ مر تا ہے‘‘۔ معروف صحافی سدھارتھ وردراجن نے اس موقع پر کہا کہ مخالفین کے پروپیگنڈہ سے گمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے’’گوری کے قتل کے بعد ہمیں اس بات کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ آ ج ہندوستان اور ہندوستانی جمہوریت کو کیا چاہیے۔ ہمیں پولس کے کردار پربھی غور کرنا چاہیے اگر ڈابھولکر، پنسارے اور کلبرگی کے قتل معاملوں میں وقت رہتے کارروائی ہو جاتی تو گوری کا قتل شائد نہیں ہوتا۔ ہمیں سوشل میڈیا اور کچھ ٹی وی چینلوں کے ذریعہ پھیلائے جانے والے پروپیگنڈہ سے گمراہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس قتل کی وجہ فیملی کا جھگڑا ہے یا ایکٹیوسٹ کے بیچ کاکوئی جھگڑا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’آج کے ہندوستان میں سب سے مشکل کام سوال اٹھانا ہے اور گوری لنکیش کو سوال اٹھانے کی وجہ سےہی قتل کیا گیا اور جب تک سوال اٹھانے والوں کی تعداد کم ہے تبھی تک سوال اٹھانے والوں کے خلاف سازش کرنا آسان ہوگا اس لئے سوال اٹھاتے رہیے اور اپنی تعداد بڑھا تے رہیے اور یہ جب ہی ہوگا جب میڈیا اپنا کام ایمانداری سے کرے گا‘‘ ایڈیٹرس گلڈ کے راج چنگپا نے گوری کے قتل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’گوری کا قتل جمہوریت اور اظہار آزادی پر حملہ ہے‘‘۔ بزرگ صحافی ایچ کے دُوا نے کہا ’’گوری نے اپنی موت سے ثابت کر دیا کہ وہ ایک بہادر اور عظیم صحافی تھیں۔ گوری کا قتل اس لئے ہوا کیونکہ اس نے موجودہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی۔ گوری کے مارنے والے، صحافیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر آپنے بھی ایسی کوئی ہمت دکھائی تو آپ کا بھی یہی حشر ہو گا‘‘۔
گوری کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک خاص طبقہ نے جس بدتمیزی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ناراض رویش کمار نے کہا ’’ گوری کے قتل کے بعد اندازہ ہوا کہ ہمارے آس پاس کتنے قاتل موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر قاتلوں کی ایک فوج ہے۔ کرناٹک اور مہا راشٹر کی حکومتوں کے کام کاج سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہر حکومت ہمارے خلاف ہی ہے ۔ مجھے دکھ ہے جس شخص(وزیر اعظم) کو ہندوستان کی عوام نے اتنی چاہت سے اقتدار کی گدی سونپی وہ شخص ایسے لوگوں کو ٹوئٹر پر فالو کرتا ہے جو کسی کے مرنے پر مرنے والے کو’ کتیا‘ لکھتا ہے۔ وزیر اعظم بتائیں کہ ان کو نکھل دھدیچی جیسے لوگوں کو فالو کرنے کا وقت کہاں سے ملتا ہے اور برما سے جب وہ واپس آئیں تو سب سے پہلے وہ نکھل دھدیچی جیسے شخص کو انفالو کریں‘‘۔ اجیت انجم نے رویش کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ گوری کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک جماعت کے ذریعہ جوقتل کا دور شروع ہوا ہےوہ زیادہ تشویشناک ہے۔ نکھل دھدیچی کا پیغام پڑھ کر میرا خون کھول رہا ہے ‘‘۔
ٹی وی کی بڑی شخصیت برکھا دت نے اس موقع پر کہا’’ ہم میں اختلاف رائے ہو سکتی ہے لیکن اگر آج ہم خاموش رہے تو ہم اپنے پیشے کے ساتھ نا انصافی کریں گے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ بالخصوص خواتین کے ساتھ جس طرح بدتمیزی کی جارہی ہے اب ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور مجھے نہیں لگتا کہ اب دوسرا گال سامنے کرنے کا وقت رہ گیا ہے اب ہمیں ان کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے ، اور ہمیں کارروائی کرنی چاہیے‘‘۔ نوجوان خاتون صحافی نیہا دکشت نے کہا ’’ خاتون صحافیوں پر سوشل میڈیا پر ایک انتہائی نازیبا الزام لگایا جاتاہے کہ فلاں خاتون صحافی یہ خبر اس لئے کرر ہی ہے کیونکہ اس نے فلاں کے ساتھ رات گزاری ہوگی۔ کیا کسی عورت کو خبر کرنے کے لئے کسی کے ساتھ رات گزارنی پڑتی ہے؟ خاتون صحافیوں کے لئے یہ انتہائی توہین کی بات ہے ۔ میں یہ بتادینا چاہتی ہوں کہ اس طرح کی بدتمیزی اور گوری کا قتل ہماری آواز کو دبا نہیں سکتا اور جو کام گوری کر رہی تھی وہ اب رکے گا نہیں‘‘۔
خاتون صحافی رینو متل نے لڑائی کو جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم نے آزادی کی لڑائی میں تو حصہ نہیں لیا لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ جدو جہد کتنی مشکل تھی کیا آج پھر ہمیں اپنی تمام قوت کو یکجا کر کے اظہار آزادی کی لڑائی لڑنی پڑے گی، ہمیں اس کو یہیں نہیں چھوڑنا ہوگا، اس لڑائی کو آگے لے جانا ہوگا‘‘۔ راکھی بخشی نے کہا ’’ہمیں رونا بند کرنا ہوگا ہمیں گوری کی لڑائی کو آگے لے جانا ہوگا۔ ہم ایسی حرکتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے‘‘۔ ایک اور خاتون صحافی راج لکشمی نے کہا ’’گوری کا قتل ایسے ہی نہیں ہو گیا، گوری کچھ اصولوں اور نظریوں کو ماننے والی تھی اور وہ ان کے لئے لڑ رہی تھی اور ہمیں ان کی لڑائی کو متحد ہو کر آگے لے جانا ہو گا، یہ نظریات کی لڑائی ہے‘‘۔
اس موقع پر کچھ سیاست داں بھی موجود تھے۔ سی پی ایم کے سیتا رام یچوری نے کہا ’’بہت غصہ ہے ہم لوگوں کو نہ صرف انفرادی طور پر احتجاج کرنا چاہیے بلکہ متحد ہو کر احتجاج کرنا چاہیے۔ ڈابھولکر، پنسارے، کلبرگی اور اب گوری یہ ایک انتہائی تشویشناک رجحان ہے اور ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ سی پی ایم کے محمد سلیم نے سوال کیا کہ کیا ہم پاکستان اور بنگلہ دیش بنتے جا رہے ہیں ’’ یہ ایک فرد کا قتل نہیں ہے یہ آزادانہ سوچ اور جو سر اٹھاکر جینا چاہتے ہیں ان کے لئے سزا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ بھی ایسی سزا سناتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ لیکن گوری ابھی زندہ ہے کیونکہ گوری کو ئی فرد نہیں ہے بلکہ اس ملک کا نظریہ ہے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ جورجحان ہم نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں دیکھے تھے وہ اب ہم یہاں بھی دیکھ رہے ہیں‘‘۔اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے محمد سلیم نے راحت اندوری کا ایک شعر پڑھا :
جو طور ہے دنیا کا، اسی طور سے بولو
بہروں کا علاقہ ہے ، ذرا زور سے بولو
اس موقع پر سوامی اگنیویش نے کہا ’’لڑائی چھڑ چکی ہے، دشمن نے نیوتا دے دیا ہے اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے ‘‘
سی پی آئی کے ڈی راجا نے صحافیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ کہا یہ جا رہا ہے کہ گوری کا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ تھا تو کیا کسی کا کسی جانب جھکاؤ ہونے کی وجہ سے اس کو مار دیا جائے گا۔ کیا یہی ہے آزادی کے 70سال کاجشن کہ کوئی آزادی کے ساتھ کسی نظریہ کے ساتھ نہیں جڑ سکتا، کوئی آزادی کے ساتھ اپنی بات نہیں لکھ سکتا، کوئی آزادی کے ساتھ اپنی مرضی کا کچھ کھا نہیں سکتا‘‘۔دیپانکر بھٹاچاریہ نے کہا ’’گوری کا قتل دراصل اظہار آزادی کے لئے ایک شہادت ہے۔ اگر گوری نے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کر لیا ہوتا تو وہ دوسری طرح کی مثال ہوتیں لیکن انہوں سمجھوتہ نہیں کیا اس لئے آج وہ دوسری طرح کی مثال ہیں۔ آج وہ مثال ہیں تو بہادری کی مثال ہیں، جدو جہد کی مثال ہیں اور آج ہمیں ایسی ہی مثالوں کی ضرورت ہے۔
جے این یو اسٹوڈینٹس یونین کے سابق صدر کنہیا کمار نے کہا ’’گوری میرے لئے ماں جیسی تھیں انہوں نے مجھ سے بس ایک ہی بات کہی تھی کہ اگر آپ سچ میں یقین رکھتے ہیں تو پھر کسی بھی بات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ سچائی کے راستے پر تھیں اسی لئے ان کی جان لے لی گئی ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ابھی لاش اٹھی بھی نہیں اور کچھ لوگوں نے ان کے بارے میں اتنا الٹا سیدھا لکھنا شروع کر دیا ،ان کے کردار پر کیچڑ اچھالنی شروع کر دی‘‘۔ انہوں نے اختتام پر ایک شعر پڑھا :
اس دور کے انداز نرالے دیکھے
فیصلہ قتل کا قاتل کے حوالے دیکھے
(پریس کلب آف انڈیا میں ہوئی گوری سبھا کا پیغام بس یہی تھا کہ گوری نے جو نظریات کی لڑائی شروع کی تھی وہ لڑائی اختتام تک پہنچانی ضروری ہے، خواہ اس میں جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے!)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Sep 2017, 2:54 PM