مہاجر مزدوروں نے سنائی درد بھری داستان، بھوکے پیٹ رات بھر چلتے ہیں پیدل
ہندوستان میں مہاجر مزدور صنعتی شہروں سے نکل کر واپس اپنے گاؤں تک واپس پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس عمل میں دن کے دوران چھپنا اور اور ہر رات 20 کلو میٹر پیدل سفر طے کرنا عام بات بن گئی ہے۔
ہندوستان میں لاک ڈاؤن کے درمیان مہاجر مزدوروں کو سینکڑوں مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ انہی مسائل کے پیش نظر مزدور صنعتی شہروں سے نکل کر واپس اپنے دور دراز گاؤں تک واپس پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس عمل میں دن کے دوران چھپنا اور ہر رات تقریباً 20 کلو میٹر کا پیدل سفر طے کرنا ان کے لیے عام بات ہو گئی ہے۔ انہی مزدوروں میں سے ایک ہے 23 سالہ شیوبابو جو رات میں کئی کئی کلو میٹر پیدل سفر طے کر رہا ہے تاکہ جلد سے جلد اپنے گھر پہنچ جائے۔ ہریانہ کے پانی پت شہر میں تولیہ بنانے والی ایک کپڑا فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور بابو گھر واپسی کے لیے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ ایک ہی گاؤں کے باشندے اس گروپ میں شامل ہیں۔
شیوبابو نے خبر رساں ادارہ آئی اے این ایس سے بات چیت کے دوران کہا کہ "ہم روزانہ صبح سویرے 3 بجے سے دوپہر ایک بجے تک چلتے ہیں اور پھر دوپہر 3 بجے سے دیر رات 1 بجے تک سفر جاری رہتا ہے۔ آرام کا وقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس بہت کم پیسہ بچا ہے اور فیملی تک واپس پہنچنے کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔" گویا کہ کسی طرح سے کبھی بھوکے پیٹ اور کبھی تھوڑا بہت کچھ کھا پی کر شیو بابو اور ان کے گروپ میں شامل لوگوں کا سفر گھر کی طرف جاری ہے۔
18 سے 25 سال کی عمر کے لوگ اس گروپ میں شامل ہیں۔ یہ گروپ جب جنوبی دہلی کے ایک سنسان بازار میں آرام کر رہا تھا، تب انھوں نے میڈیا کے کچھ لوگوں سے بات کی۔ شیو بابو نے بتایا کہ "کئی بار تو پکڑے جانے کے خوف سے ہمیں چھپے رہنا پڑتا ہے اور پورا دن برباد ہو جاتا ہے۔" اس نے مزید کہا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ وبا کی روک تھام کے مدنظر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے، لیکن پانی پت میں ہماری موجودہ حالت بدتر ہو گئی ہے۔ وہاں کے لوگ بے حد مددگار ہیں اور ہمیں سمجھتے بھی ہیں، لیکن کسی پر بوجھ بننے سے اچھا ہے آگے بڑھ چلنا۔"
شیو بابو کا کہنا ہے کہ "اپنے گاؤں اور گھر واپسی کے لیے نکل پڑے مہاجر مزدور زیادہ تر دن کے وقت چھپے رہتے ہیں تاکہ پولس اہلکار انھیں پکڑ نہ لیں۔ رات کے وقت لوگ زیادہ سے زیادہ چلنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس وقت پولس والے کم ہی نظر آتے ہیں۔" بابو نے بتایا کہ "کچھ مہاجر مزدور سڑک کے راستے گھر کی طرف جا رہے ہیں جب کہ کچھ لوگ ریلوے لائنوں کے بغل سے چل رہے ہیں۔ لیکن ہم نے ان سڑکوں پر جانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں گلیاں ملی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ گلیوں میں پولس کی تعداد کم ہوتی ہے۔"
بابو کے چھوٹے سے گروپ میں شامل ایک 22 سالہ مہاجر مزدور موتی نے بتایا کہ "تین دنوں میں ہم نے 150 کلو میٹر سے زیادہ کا سفر طے کر لیا ہے۔ ہمیں کتنا چلنا ہے، اس کو ہم نے جوڑ لیا ہے۔ ہمیں گھر پہنچنے کے لیے آگے صرف 700 سے 1000 کلو میٹر مزید چلنا ہے۔ ہم جلد ہی ایک ہفتے کے وقت میں گھر پہنچ جائیں گے۔" یہ پوچھے جانے پر کہ اپنے گاؤں تک پہنچنے کے لیے صحیح سمت وہ جا رہے ہیں یا نہیں؟ موتی نے کہا کہ "کئی اچھے لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں صحیح اور چھوٹا راستہ بتایا ہے۔ ہم مجرم نہیں ہیں، ہمیں بس گھر جا کر اپنے گھر والوں کو دیکھنا ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی بخار یا فلو جیسی کوئی بیماری نہیں ہے۔" اس نے آگے کہا کہ "ہم اس بات کا پورا دھیان رکھ رہے ہیں کہ کسی کو کورونا انفیکشن نہ ہو۔ ہم سبھی ماسک پہننے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بار بار دھوتے بھی ہیں۔ ساتھ ہی راستے میں ملنے والے دیگر مہاجر مزدوروں سے کوئی بات چیت بھی نہیں کرتے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 May 2020, 8:40 PM