گجرات ’ماڈل‘ نہیں ’گڑبڑ جھالا‘ ہے: جیاں دریز

گجرات اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے کئی مشہور و معروف ماہرین سیاست اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ سابق مرکزی وزراء نے مودی حکومت اور ترقی سے متعلق ان کے ’گجرات ماڈل‘ کی قلعی کھولی۔

تصویر نو جیون
تصویر نو جیون
user

قومی آواز بیورو

ترقی کا ’گجرات ماڈل‘ دراصل ’گجرات مڈل‘ ہے اور یہ روزگار ختم کرنے والا ماڈل ہے۔ ساتھ ہی مرکز کی نریندر مودی حکومت کی سب سے بڑی حصولیابی ’جھوٹ‘ ہے۔ گجرات انتخابات سے ٹھیک پہلے کئی مشہور و معروف ماہرین سیاست، ماہرین معیشت اور صحافیوں و سابق مرکزی وزراء نے مودی حکومت اور ترقی سے متعلق ان کے ’گجرات ماڈل‘ کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ معروف ماہر معیشت جیاں دریز نے اسے ’گجرات مڈل‘ یعنی گجرات کا گھپلا قرار دیا ہے تو وہیں ماہر سیاست کرسٹوفر جیفرلا نے روزگار سے عاری ماڈل بتایا ہے۔ دوسری طرف سینئر صحافی اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے مودی حکومت کی واحد حصولیابی کو’جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔

دہلی میں ہوئے ایک لٹریری فیسٹیول میں معروف سماجی کارکن اور ماہر معیشت جیاں دریز نے مودی حکومت پر حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ گجرات ماڈل کسی بھی معاملے میں ماڈل ہے۔ انھوں نے سماجی پیمانوں پر ریاست کی پسماندگی کے ضمن میں یہ باتیں کہیں۔ لٹریری فیسٹیول میں موجود لوگوں کے سامنے جیاں دریز نے کہا کہ ’’آپ ترقیاتی پیمانوں کی کسی بھی رینکنگ کو دیکھیے، چاہے وہ سماجی پیمانے ہوں، انسانی ترقی کے پیمانے ہوں، اطفال کے لئے فلاح و بہبود سے متعلق پیمانے ہوں، کثیر جہتی غریبی انڈیکس ہوں یا پھر پلاننگ کمیشن کے سبھی غریبی انڈیکس سے متعلق پیمانے، ان سبھی پر گجرات حکومت تقریباً ہمیشہ بیچ میں ہی منڈراتا رہا ہے۔‘‘

قومی دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ (نریگا، جسے اب منریگا کہا جاتا ہے) کے پہلے ایڈیشن کا مسودہ تیار کرنے میں مدد کرنے والے دریز نے کہا کہ یہ تو وزیر اعظم نریندر مودی ، ریاست کے وزیر اعلیٰ بننے سے بہت پہلے تیار ہو چکی تھی اور اس کے بعد بھی حالت یہی رہے ہیں۔ جیاں دریز ایک بار ’گجرات مڈل‘ کے عنوان سے مضمون لکھ چکے ہیں۔ انھوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ دراصل ’گجرات ماڈل‘ نام 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے آس پاس تیار کیا گیا اور اس کے پیچھے صرف سیاسی مقصد تھا۔ انھوں نے مانا کہ کچھ اکونومی انڈیکس کے لحاظ سے گجرات کی حالت کہیں کہیں بہتر نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود سماجی ترقی کے رجحان کو دیکھیں تو یہ ماڈل ایک غلط مثال ہے۔

دریز نے کہا کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں میں یقینا کوئی کمی ہے اور یہ ترقی کے لیے پرائیویٹ سیکٹر پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے کا نتیجہ ہے۔ جیاں دریز نے حال ہی میں موڈیز کی طرف سے ہندوستان کی ریٹنگ کو ’بی اے اے2‘ سے بڑھا کر ’بی اے اے 3‘ کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایسے انڈیکس اور ریٹنگز کی معتبریت پر ہمیشہ شبہ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر ایسی ریٹنگز طے کرنے کے طور طریقوں پر غور کریں گے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں کچھ خاص نہیں ہے، سوائے اس کے کہ انھیں کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا جاتا ہے۔‘‘

لٹریری فیسٹیول میں لوگوں کے سامنے ارون شوری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ نریندر مودی حکومت کی پہچان بن گئی ہے اور یہ ملازمت پیدا کرنے جیسے کئی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں وزیر رہ چکے شوری نے ملک کے لوگوں سے حکومت کے کاموں کا باریکی سے معائنہ کرنے کی اپیل کی۔ شوری نے مزید کہا کہ وہ کئی مثال دے سکتے ہیں جس میں اخباروں میں پورے صفحات کا اشتہار دے کر حکومت نے صرف منصوبوں کے ذریعہ ساڑھے پانچ کروڑ سے زیادہ ملازمت پیدا کرنےکے اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’لیکن ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے... جھوٹ حکومت کی پہچان بن چکی ہے۔‘‘

شوری نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات کی جانچ نہیں کرنی چاہیے کہ ایک شخص یا لیڈر طویل مدت سے کیا کر رہا ہے بلکہ اس کے کاموں پر باریکی سے نظر رکھنی چاہیے۔ مہاتما گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’گاندھی جی کہتے تھے کہ وہ (شخص) کیا کر رہا ہے یہ مت دیکھیے بلکہ اس کے کردار کو دیکھیے اور آپ اس کے کردار سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ہم نے دو بار غلطی کی، ایک بار سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کے معاملے میں اور دوسری مرتبہ نریندر مودی کے معاملے میں۔ وہ وہی بات کہتے ہیں جس کو اس لمحہ کہنے میں وہ سہولت محسوس کرتے ہیں۔ شوری نے حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کو چھوٹا کرنے کی بھی سخت تنقید کی۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں مشہور ماہر سیاست کرسٹوفر جیفرلا نے بھی گجرات ماڈل پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ گجرات حکومت کی جانب سے بڑی بڑی کمپنیوں کو تمام طرح کی سہولتیں دیے جانے کے باوجود روزگار پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گجرات ماڈل سے نکلنے والے زیادہ تر چھوٹے اور متوسط صنعتوں اور یونٹوں سے اتنے روزگار نہیں پیدا ہوئے جتنی ان کی صلاحیت کے مطابق ہونی چاہیے تھیں۔ جفرلا نے مزید کہا تھا کہ گجرات ماڈل میں ایسی کثیر ملکی کمپنیوں سے کافی سرمایہ کاری حاصل ہوئی جنھیں حکومت نے سستی یا مفت زمینیں، سستے مزدور اور ٹیکس میں چھوٹ دی۔ ان کمپنیوں نے کارخانے، ریفائنریوں کی تعمیر تو کی لیکن ان سے اتنی نوکریاں پیدا نہیں ہوئیں جتنی چھوٹی اور متوسط صنعتیں یا کارخانے پیدا کر سکتی تھیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔