کہ ہر ستم کا جواب آئے گا- دیکھنا انقلاب آئے گا، عمران پرتاپ گڑھی نے باندھا سماں
عمران پرتاپ گڑھی نے کہا 'میرے ساتھ یہ ہے کہ جو عوام مجھے سننے آتی ہے وہ آئی ہوئی بھیڑ ہوتی ہے، لائی ہوئی نہیں ہوتی ہے'۔
راجدھانی دہلی میں 'ساہتیہ آج تک 2024' کے پہلے دن شاعر اور کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی عمران پرتاپ گڑھی 'سیاست اور شاعری' پروگرام میں مہمان بن کر آئے۔ پروگرام کے پہلے دن جمعہ 22 نومبر کو 'اسٹیج-1 ہلّا بول چوپال' پر 'سیاست اور شاعری' میں یش بھارتی ایوارڈ یافتہ شاعر اور کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے اپنے شاعرانہ کلام سے سامعین کا دل جیت لیا۔ اس موقع پر سیشن ماڈریٹ کرنے کے لیے اینکر انجنا اوم کشیپ اسٹیج پر موجود تھیں۔
شعر و شاعری کی دنیا اور سیاست میں آنے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے عمران پرتاپ گڑھی نے بدھی سین شرما کا شعر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب ابتدائی دنوں میں وہ شاعری کر رہے تھے، اس دور میں سیاست کے بارے میں لوگ ایسا لکھ رہے تھے؛
دیے بجھاتی شعلوں کو بھڑکاتی ہے،
آندھی کو بھی دنیاداری آتی ہے
راجنیتی کے گلیاروں میں مت جانا
ناگن اپنے بچوں کو کھا جاتی ہے
عمران نے بات چیت کو آگے بڑھاتے کہا کہ میرے والد چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں، پھر جب میں شاعری کی راہ پر نکلا تو انہیں لگا 'لڑکا خراب ہو گیا'۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے لٹریچر سے پڑھائی کی۔ پھر شاعری کو پیشہ چنا اور اب سیاست کا حصہ ہوں۔ عمران نے بتایا کہ انہوں نے صحافت کی بھی پڑھائی کی ہے لیکن یہ پیشہ انہوں نے نہیں چنا۔
عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ میرے لیے لوگوں سے جڑنا بہت آسان ہوتا ہے۔ وہاں لوگ مجھے سننے آتے ہیں دیکھنے نہیں۔ فلم اسٹارس آتے ہیں، کسی پروگرام میں تو لوگ انہیں دیکھنے آتے ہیں۔ میرے ساتھ یہ ہے کہ جو عوام مجھے سننے آتی ہے وہ آئی ہوئی بھیڑ ہوتی ہے، لائی ہوئی نہیں ہوتی ہے۔
انقلاب کا نعرہ ہوگا
پہلا نام ہمارا ہوگا
دھرتی کے آنسو نکلیں گے اور سمندر کھارا ہوگا
درپن کتنا پیارا ہوگا جس میں عکس ہمارا ہوگا
ایک اکیلا کیا کر لیتا
بھیڑ نے گھیر کے مارا ہوگا، پہلا نام ہمارا ہوگا
جب تاریخ لکھی جائے گی، جب اتیہاس لکھا جائے گا
جب تاریخ لکھی جائے گی، کیسا ہشر تمہارا ہوگا،
انقلاب کا نعرہ ہوگا۔۔۔
ایک سوال کہ 'عمران کے اندر اتنا درد کیوں ہے؟' پر جواب دیتے ہوئے انہوں کہا کہ میں ہندی ساہتیہ کا طالب رہا ہوں۔ الٰہ آباد یونیورسٹی میں، جس دور میں مَیں بڑا ہو رہا تھا، سماج کے واقعات مجھ پر اثر ڈال رہی تھیں۔ اس وقت نظام ایک الگ طریقے سے برتاؤ کر رہا تھا اور خاص طور سے میں جس سماج سے آتا ہوں میں اس سماج کے درد کو زیادہ جلدی محسوس کرتا ہوں کیوں کہ میں ان کے درمیان میں رہتا ہوں۔ میں نے اس امتیازی سلوک اور سسٹم کے ظلم و ستم کو قریب سے دیکھا ہے اور شاعر ہوں تو ظاہر سی بات ہے درد تو ہے دل میں۔
ظلم کے دور کی تاریخ رقم کرتے ہیں
اتنا آسان نہیں یہ کام جو ہم کرتے ہیں
کاٹ دیتے ہیں سدا ہاتھ ہمارے ظالم اور
ہم ان کٹے ہاتھوں کو الم کرتے ہیں
ہم کوشش کر رہے تھے کہ اس درد کو محسوس کریں اور جب میڈیا اس درد کو، ظلم و ستم کو سپنا حصہ نہیں بنا رہی تھی، میری کوشش تھی کہ جو میرے پاس پلیٹ فارم ہے میں اس کا استعمال ظلم و ستم کو گانے کے لیے کروں اور مجھے لگتا ہے کہ میں کامیاب رہا، بہت حد تک، میں نے اپنی بات دنیا کے سامنے رکھی۔
مت سمجھنا کہ میں ایک گیت گاتا رہا
میں تو زخموں کا ماتم مناتا رہا
یہ سمجھ کر ظالم پگھل جائے گا
میں ترنم میں ماتم مناتا رہا
'میں ظلم پر ماتم مناتا رہا' لیکن یہ ظلم کس پر ہو رہا ہے؟ کے سوال پر عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ سماج میں حاشیے پر موجود ہر انسان پر۔ وہ ہندو بھی ہے، مسلمان بھی ہے، سکھ بھی ہے اور عیسائی بھی۔ ان پر ہمیشہ سے سسٹم کر رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ اس سے ایک لمبی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے۔ اس میں سب سے بڑی ذمہ داری ہے قلم کاروں کی، قلم کار اقتدار کا عارضی اپوزیشن ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جب میں شاعر بن کر بولوں تو پھر حاکم سے آنکھ ملا کر بات کروں۔ جب میں 2010 سے 2014 کے درمیان شعر-نظم لکھ رہا تھا 'ماں ہم بھی تیرے بیٹے ہیں۔۔۔' وہ 2011 میں لکھی تھی، مدرسوں کی نظم 2012 میں لکھی۔ اس کے بعد حالات جیسے جیسے بدلتے گئے میں نے کوشش کی کہ میں اپنی قلم کے ساتھ انصاف کرتا رہوں۔
شاعری اور پارٹی کے نظریا پر پوچھے گئے ایک سوال پر عمران نے کہا کہ میں ایک پارٹی کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ ہم کسی ادارے کے ساتھ کام کرتے ہیں، ادارہ ہمیں احترام دیتا ہے، ہم ادارے کے نظریہ کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں تب تک ساتھ چلتے ہیں، جس دن ہمیں لگے گا کہ ادارہ ہمارے نظریہ سے متفق نہیں ہے، ہماری شرطوں کو نہیں مان رہا ہے تو میں اس دن یہ ہوسکتا ہے۔ میرا اپنا اصول ہے کہ میں پارٹی تو نہیں بدلوں گا، سیاست چھوڑ دوں گا۔ ہماری اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ یہ کہنا کہ میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ سب سے بڑی سیاست ہے، وہ اپنے آپ کو سب کا رکھنا چاہتا ہے۔ا سپ ر ایک شعر سناتے ہوئے اپنی بات کچھ یوں رکھی۔۔۔
خوف نہیں جسے مرجھانے کا میں اس گُل کے ساتھ کھڑا ہوں
کیسا بھی دور آئے لیکن میں راہل کے ساتھ کھڑا ہوں
کل بھی کُھل کے ساتھ کھڑا تھا آج بھی کُھل کے ساتھ کھڑا ہوں
کیسا بھی دور آئے میں راہل کے ساتھ کھڑا ہوں
پروگرام کے بیچ بیچ میں عمران نے اپنی شاعری اور نظموں سے سامعین کو باندھے رکھا۔
نظریہ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر 'لنچنگ' پر بیچ کا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس پر عمران نے کہا کہ میں اپنی نئی نسلوں سے ایک بات کہوں گا۔ سوشل میڈیا آپ کی بات پہنچانے کا ذریعہ بھر ہے۔ بحث کا پلیٹ فارم نہیں ہے۔ وہاں بحث مت کریے۔ آپ کو ٹوئٹ کرنا، فیس بُک-انسٹا پر کچھ لکھنا ہے تو لکھ دیجیے اپنی بات پہنچا دیجیے۔ اس پر ری پلائی کرنے مت جایئے۔ کمنٹ پڑھنے کی زبردستی کوشش مت کیجیے اور پڑھیے بھی تو کسی کو ری پلائی مت کریے کیونکہ آپ ری پلائی کریں گے اور آپ سوچیں کہ سامنے والا آپ سے اتفاق کر لے، ایسا نہیں ہے۔ وہاں ایک پوری پیڑ ٹیم بیٹھی ہے۔ اپنی بات رکھ دیجیے بس۔
ایک ساتھ 146 اراکین پارلیمنٹ کی معطلی پر انہوں نے ایک کویتا سنائی۔
زخم پر زخم کھاکر نکلے ہیں
ہاں مگر مسکرا کر نکلے ہیں
سر جھکانے کا حکم جب آیا
اور بھی سر اٹھا کر نکلے ہیں
کہ ہر ستم کا جواب آئے گا
دیکھنا انقلاب آئے گا
اچھے دن کا جو کیے تھے وہ وعدہ
ان کا دن بھی خراب آئے گا
ہم تو نکلے ہیں مسکراتے ہوئے
اور وہ تلتملا کر نکلے ہیں
اور بھی سر اٹھا کر نکلے ہیں