کیا اڈانی معاملے میں پھنسے ایف پی آئی نے ’سیبی‘ کو اپنے حقیقی مالکان کی تفصیل دی؟ کانگریس کا نیا سوال
امریکی ادارہ ’ہنڈن برگ ریسرچ‘ کی رپورٹ میں اڈانی گروپ پر بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور اس سلسلے میں کانگریس اس کاروباری گروپ پر مستقل حملے کر رہی ہے۔
کانگریس نے اڈانی گروپ سے متعلق مبینہ گھوٹالے کو لے کر بدھ کے روز ایک نیا سوال کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں پھنسے فورین پورٹفولیو انویسٹرس (ایف پی آئی) نے سیبی کو اپنے حقیقی مالکان کی تفصیل دی؟ جبکہ یہ تفصیلات پیش کرنے کی آخری تاریخ 9 ستمبر تھی۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے یہ سوال پوچھا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ سیبی کو مقررہ پیمانوں پر ایمانداری کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی ادارہ ’ہنڈن برگ ریسرچ‘ کی رپورٹ میں اڈانی گروپ پر بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور اس سلسلے میں کانگریس اس کاروباری گروپ پر مستقل حملے کر رہی ہے۔ حالانکہ اڈانی گروپ نے سبھی الزامات کو خارج کر دیا ہے۔ اب اس معاملے میں جئے رام رمیش نے ’ایکس‘ پر تازہ پوسٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’آج 11 ستمبر ہے۔ ان ایف پی آئی کو اپنی ہولڈنگز کے منافع حاصل کرنے والے مالکان کے نام بتانے کے لیے مقررہ سیبی کی مدت کار کو ختم ہوئے دو دن ہو گئے ہیں، جن پر اپنے ایکویٹی پورٹفولیو کے تقریباً پورے حصے کو ایک ہی کارپوریٹ گروپ میں رکھنے کا الزام ہے۔ اس کی مدت کار 9 ستمبر ہی تھی۔‘‘
جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ کانگریس نے اس ایشو کو کچھ دن قبل اٹھایا تھا کہ ماریشس واقع ان دو ایف پی آئی نے سیبی اپیلیٹ ٹریبونل میں عرضی داخل کر نئے ایف پی آئی اصولوں پر عمل کرنے سے فوری راحت کا مطالبہ کیا ہے جو ’مودانی مہاگھوٹالے‘ میں ہو رہے انکشافات کا حصہ ہے۔ جئے رام رمیش نے سوال کیا ہے کہ ’’کیا سبھی ایف پی آئی کو ان پیمانوں پر عمل کرنے کے لیے سیبی کو اپنے آخری منافع پانے والے مالکان کی تفصیل کا انکشاف کرنا ضروری ہے؟ کن ایف پی آئی نے اس پر عمل کیا ہے اور کون کون سے ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ خاص طور سے کیا ’مودانی مہاگھوٹالہ‘ میں پھنسے ایف پی آئی نے سیبی کو اپنے حقیقی مالکان کی تفصیل دی ہے؟‘‘
کانگریس جنرل سکریٹری نے دعویٰ کیا کہ ’’مودانی مہاگھوٹالہ پر اپنے شروعاتی فیصلوں کے حصے کی شکل میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ سیبی ان ایف پی آئی کے زریعہ کی گئی خلاف ورزی کی جانچ دو ماہ کے اندر کرے۔‘‘ انھوں نے سوال کیا کہ اس نئے پیمانہ کو نافذ کرنے میں 18 ماہ کیوں لگے؟ جئے رام رمیش نے یہ سوال بھی کیا کہ ’’کیا سپریم کورٹ کے فیصلے اور ایف پی آئی کے لیے عمل درآمد کی تاریخ کے درمیان 18 ماہ کی اس وسعت شدہ مدت کار نے ان فنڈ اور ان کے مالکان کو اسٹاک سے ڈس انوسٹمنٹ کرنے اور ان پیمانوں کی شفافیت جس چیز کے لیے چاہیے تھی، اس منشا کو ناکام کرنے کی اجازت دی؟ اگر ہاں، تو یہ یقینی کرنے کے لیے سیبی کا کیا منصوبہ ہے کہ ایمانداری کے پیمانوں کو پورا کیا جائے؟‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔