جے این یو اساتذہ اور طلبا پر دہلی پولس کی بربریت
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کے ذریعہ جمعہ کو ایک پرامن احتجاجی مارچ نکالا گیا جس پر دہلی پولس نے لاٹھی چارج کیا۔ اس بے رحمانہ عمل پر مبنی کئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔
مرکز کی مودی حکومت کے ماتحت دہلی پولس نے جمعہ کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ہزاروں طلبا اور اساتذہ پر آئی این اے مارکیٹ کے نزدیک لاٹھی چارج اور پانی کے برتنوں سے حملہ کرنے کا حکم صادر کیا جس کے بعد اس کارروائی میں کئی اساتذہ اور طلبا زخمی ہوئے۔ یہ طلبا اور اساتذہ یونیورسٹی کے نئے حاضری اصولوں پر عمل نہ کیے جانے کا الزام عائد کر کے کچھ شعبوں کے سربراہ اور کو آرڈینیٹر کو انتظامیہ کے ذریعہ ہٹائے جانے سے متعلق نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے اور اسی مقصد سے پرامن احتجاجی مارچ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔
دہلی پولس کے ذریعہ اساتذہ اور طلبا پر کیے گئے مظالم کے کئی ویڈیو اور تصویریں ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ہیں۔ اس دوران پولس نے 20 طلبا کو گرفتار بھی کیا ہے۔ ان میں سے کچھ طلبا کو حوض خاص پولس اسٹیشن اور بقیہ کو ڈیفنس کالونی دہلی پولس لائسنسنگ یونٹ اسٹیشن میں رکھا گیا ہے۔ طلبا کا کہنا ہے کہ یہاں ان کی پٹائی بھی کی گئی اور کپڑے بھی پھاڑے گئے۔ اطلاعات کے مطابق طلبا کی گرفتاری کی خبر سن کر سی پی آئی (ایم) پولٹ بیورو ممبر سہاسنی علی اور کانگریس لیڈر اشوک تنور جب پولس اسٹیشن پہنچے تو طلبا کو چھوڑا گیا۔
اس سلسلے میں جے این یو کے ایک طالب علم نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ سے بات کرتے ہوئے اپنے مطالبات اور کیے جارہے احتجاج سے متعلق تفصیل سے بتایا۔
پرامن احتجاجی مارچ میں شامل طلبا نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر تصویریں اور ویڈیو اَپ لوڈ کیے ہیں جس میں پولس کے ذریعہ کیے جا رہے لاٹھی چارج کا انداز حیران کرنے والا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولس پارلیمنٹ کی طرف مارچ کرنے سے روک رہی تھی اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر رہی تھی۔ اس سلسلے میں دہلی پولس افسران کا رد عمل جاننے کی کوشش کی گئی لیکن فون پر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
جے این یو ٹیچر ایسو سی ایشن اور جے این یو طلبا اپنے مارچ کے دوران پروفیسر اتل جوہری کی ملازمت ختم کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے جن پر آٹھ طالبہ نے جنسی استحصال کا الزام عائد کیا ہے۔
جے این یو کے اساتذہ کئی شعبوں کے سربراہ اور ایک کو آرڈینیٹر کو ہٹائے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور ان میں سے کئی بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھے ہیں۔ ٹیچرس ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ابھی تک ان بھوک ہڑتال پر بیٹھے فیکلٹی ممبرس سے ملاقات نہیں کی ہے جنھوں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ ان لوگوں کا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ سبھی شعبوں سے ہٹائے گئے سربراہوں سے متعلق نوٹیفکیشن واپس لے اور دیگر متعلقہ سرکلر کو بھی ختم کرے۔
ہریانہ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر اور سابق جے این یو طالب علم اشوک تنور نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’دہلی پولس، جو کہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ماتحت ہے، اس نے طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ جے این یو برباد کرنے کا ایک حصہ ہے۔ آر ایس ایس-بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ جے این یو کیمپس کی بھگوا کاری کریں۔ یونیورسٹی میں تقرری، سیٹوں کو کم کرنا، اسکالرشپ ختم کرنا، ہر جگہ آر ایس ایس کا ہاتھ ہے۔‘‘
جے این یو اساتذہ اور طلبا کے پرامن احتجاجی مارچ اور پولس کی بربریت پر مبنی ٹوئٹر پر ڈالے گئے ویڈیوز واقعی حیران کرنے والے ہیں۔ آپ بھی دیکھیے...
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Mar 2018, 11:40 AM