میرٹھ کے مسلمانوں پر دہشت کا سایہ، کہیں کوئی سازش تو نہیں!

میرٹھ میں موب لنچنگ کے خلاف نکالے جا رہے جلوس پر پولس نے لاٹھی چارج کیا جس کے بعد وبال ہو گیا، اس معاملہ میں اب تک پولس نے 49 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

جمعہ کے روز (5 جولائی) میرٹھ شہر کی تمام مسجدوں کے باہر بھاری تعداد میں پولس کی نفریاں موجود تھیں اور تمام اعلیٰ افسران درجنوں گاڑیوں کے ساتھ سی آر پی ایف کی نیلی پلٹن کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔ جمعہ کے پیش نظر بازاروں میں مسلم خواتین نہ کے برابر نظر آئیں، تمام اسکول بھی بند کر دیئے گئے اور انٹر نیٹ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ شہر میں کرفیوں کا اعلان تو نہیں تھا مگر حالات عین کرفیو جیسے ہی نظر آئے، پولس فورسز بھی اتنی زیادہ تعداد میں موجود رہی جتنی کہ عموماً کرفیو کے دوران میں ہوتی ہے۔

دراصل میرٹھ سمیت مغربی یو پی کے کئی شہروں میں جھارکھنڈ میں ہوئی تبریز انصاری کی موب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اسی سلسلہ میں اتوار کے روز میرٹھ میں بھی ایک امن مارچ نکالا گیا۔ اطلاعات کے مطابق مارچ میں موجود لوگوں پر پولس نے اچانک لاٹھی چارج کر دیا جس کے بعد افرا تفری پھیل گئی۔ اس معاملہ میں پولس نے اب تک 49 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ ادھر، پولس کی جابرانہ کارروائی سے مشتعل کچھ لوگوں نے ایک پیغام کو سوشل میڈیا پر وائرل کر کے 5 جولائی کو ’بھارت بند‘ کی کال دے دی ہے۔


بدر علی کے چچا افتخار علی خان
بدر علی کے چچا افتخار علی خان

لیکن کیا یہ واقعہ اتنا سنگین تھا کہ شہر کے حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ کرفیو جیسی پابندیاں عائد کرنی پڑ جائیں! خیرنگر کے نفیس احمد (60 سال) کا کہنا ہے کہ اب تک سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سب کچھ کیسے ہو گیا اور اس معاملہ نے اتنی شدت کیونکر اختیار کر لی، انہوں نے کہا کہ امن مارچ کے دوران دو فرقے کسی بھی لمحہ آمنے سامنے نہیں آئے۔ حالانکہ کچھ لڑکوں نے مارچ کے خلاف نعرے بازی ضرور کی۔ پولس کو ان لوگوں کی نشاندہی کرکے کارروائی کرنی چاہیے۔ نفیس نے کہا کہ مارچ میں شامل لوگوں پر پولس کی اتنی زیادہ طاقت کا استعمال غلط تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مسلمانوں کو پولس کی طرف سے کسی خاص نظریہ کے تحت سبق سکھایا جا رہا ہے۔


چشمدیدوں کے مطابق فیض عام کالج کے میدان پر موب لنچنگ کے خلاف تقریباً 10 ہزار لوگ جمع تھے۔ اس مارچ کی کال مقامی تنظیم ’یوا سیوا سمیتی‘ کی طرف سے دی گئی تھی۔ سمیتی کے صدر بدر علی نے مارچ کی اپیل کی تھی۔ پولس نے بدر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے اور ان پر این ایس اے (قومی سلامتی قانون) کے تحت کارروائی کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔

میرٹھ کے مسلمانوں پر دہشت کا سایہ، کہیں کوئی سازش تو نہیں!

ادھر بدر علی کی گرفتاری کو ان کے اہل خانہ سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کے چچا افتخار علی خان نے کہا، ’’بدر ایک شریف اور ذمہ دار نوجوان ہے۔ پولس اکثر کشیدگی کے دوران اسے بلاتی رہی ہے اور میرٹھ کے نوجوانوں میں بھی وہ کافی مقبول ہے۔ اس کی تنظیم شہر میں خیرسگالی کے کام کرنے کے لئے جانی جاتی ہے، وہ ایک چیریٹی اسپتال کی بھی تعمیر کرا رہے ہیں۔ میرے بھتیجے کی مقبولیت کی وجہ سے اسے سیاسی سازش کا شکار بنایا جا رہا ہے۔‘‘

میرٹھ کے ایس ایس پی (سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولس) کے مطابق بدر علی کے جرائم کا ریکارڈ تلاش کیا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف این ایس اے کی کارروائی بھی کی جائے گی۔ اس نے بغیر اجازت مارچ نکال کر شہر کی فضا خراب کرنے کی کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ 5 تھانوں میں اس کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔


پولس کے مطابق شہر میں بغیر اجازت احتجاجی مظاہرہ اور مارچ نکالنے کی وجہ سے افواہوں کا بازار گرم ہوا۔ اتنا ہی نہیں بھیڑ میں شامل کچھ نوجوانوں نے سر پر رومال باندھ کر قابل اعتراض حرکتیں بھی کیں۔ اس پر بدر علی کے چچا کا کہنا ہے کہ بھیڑ میں شامل کن لڑکوں نے حرکتیں کیں اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ہنگامہ کی شروعات کرنے والے لڑکوں کو مارچ کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

میرٹھ کے رہائشی عادل چودھری اس صورت حال کی ذمہ داری مسلم سیاسی رہنماؤں کی آپسی کھینچ تان کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بھیڑ جب واپس لوٹ رہی تھی تو کچھ لڑکوں نے پولس کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اس کا پتہ لگایا جانا چاہیے کہ وہ لڑکے کون تھے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ کہیں یہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں!‘‘


میرٹھ کے مسلمانوں پر دہشت کا سایہ، کہیں کوئی سازش تو نہیں!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM