جموں و کشمیر میں ووٹ شماری کے لئے تمام تر انتظامات مکمل

مہاجر پنڈتوں کے ووٹوں کی گنتی کے لئے جموں، ادھم پور اور دلی میں ایک ایک مرکز قائم کیا گیا ہے۔ جبکہ ووٹوں کی گنتی کے لئے معقول تعداد میں ریاستی پولس اور فورسز اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: ملک بھر کی طرح جموں وکشمیر میں بھی عام انتخابات کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے لئے تمام تر انتظامات کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ ریاست کی چھ پارلیمانی نشستوں کے لئے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے لئے دس مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور سیکورٹی اور گنتی عملے کا بھی بھر پور بندوبست کیا گیا ہے۔

ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے ووٹوں کی گنتی کے لئے عمل میں لائے گئے انتظامات کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ سری نگر، بارہمولہ، اننت ناگ، جموں اور ادھم پور پارلیمانی نشستوں کے ووٹوں کی گنتی کے لئے الگ الگ گنتی کے مراکز قائم کیے گئے ہیں جبکہ صوبہ لداخ کے لئے دو گنتی کے مراکز، ایک لیہہ میں اور ایک کرگل میں، کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ مہاجر پنڈتوں کے ووٹوں کی گنتی کے لئے جموں، ادھم پور اور دلی میں ایک ایک مرکز قائم کیا گیا ہے۔ ایک سیکورٹی عہدیدار نے بتایا کہ ووٹوں کی گنتی کے لئے معقول تعداد میں ریاستی پولس اور فورسز اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی طرف سے گنتی کے مراکز میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ بتادیں کہ جموں کشمیر میں پارلیمانی انتخابات کو اسمبلی انتخابات کے لئے سیمی فائنل کے بطور دیکھا جارہا ہے۔

پارلیمانی انتخابات میں جن سیاست دانوں کے سیاسی قسمت کا فیصلہ 23 مئی کو ہوگا ان میں نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ، پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، کانگریس کے غلام احمد میر، بی جے پی کے ڈاکٹر جتیندر سنگھ، کانگریس کے وکرم آدتیہ سنگھ اور رمن بھلہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ووٹوں کے دس گنتی مراکز میں 90 ہال قائم کیے گئے ہیں جن میں قریب 900 میز دستیاب رکھی گئی ہیں۔


قابل ذکر ہے کہ سال 2019 کے عام انتخابات کے دوران جموں کشمیر میں مجموعی پولنگ شرح 44.5 فیصد ریکارڑ ہوئی جس میں سے اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں پولنگ شرح محض 8.76 فیصد ریکارڑ کی گئی جبکہ سری نگر اور بارہمولہ پارلیمانی حلقوں میں پولنگ شرح بالترتیب 14.8 فیصد اور 34.6 فیصد ریکارڑ کی گئی۔

وادی کشمیر کے تین پارلیمانی حلقوں میں مجموعی پولنگ شرح محض 19 فیصد ریکارڑ ہوئی جبکہ 80.9 فیصد ووٹروں نے بائیکاٹ کیا۔ اس نوعیت کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ سال 1999 میں ہوا تھا جب83.39 فیصد ووٹروں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وادی میں بڑے پیمانے پر ووٹروں کی طرف سے بائیکاٹ کشمیر کے تئیں نئی دلی کی سخت گیر پالیسوں کا نتیجہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔