یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

یو پی اے حکومت سے موجودہ حکومت کا موازنہ کرنے والی بات مودی نے یونہی کہہ دی ہوگی لیکن کرناٹک کانگریس نے اسے سنجیدگی سے لیا اور مودی حکومت کی بخیا ادھیڑ دی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتہ ’ٹائمز ناؤ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے کام کی اصلیت اس وقت سامنے آئے گی جب یو پی اے حکومت کی کارگزاری اور ان کی حکومت کی کارگزاری کا موازنہ ہوگا۔ کرناٹک کانگریس نے دونوں حکومتوں کی کارگزاری کا موازنہ کیا ہے اور جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ حیران کرنے والا ہے۔

’ٹائمز ناؤ‘ کے ساتھ انٹرویو کے دوران جب اینکر نے وزیر اعظم نریندر مودی سے پہلا وال پوچھا تو انھوں نے بہت ہی سہل انداز میں کہا تھا کہ وہ خود اپنے کام کا تجزیہ کریں یہ اچھا نہیں لگتا۔ دراصل سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ آپ کی حکومت کا ساڑھے تین سال سے زیادہ وقت گزر گیا ہے، اس دوران کافی کچھ ہوا۔ آپ کی کیا حصولیابیاں ہیں اور کیا کرنا رہ گیا ہے؟

وزیر اعظم مودی نے اس سوال کا تقریباً ڈھائی سو الفاظ میں جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو ان کے کام کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی مودی نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ڈسٹنکشن سے پاس ہوئے ہیں۔ لیکن اپنے جواب میں انھوں نے ایک اور بات جوڑی، انھوں نے کہا کہ اگر ان کے کام کا تجزیہ کرنا ہی ہے تو وہ چاہیں گے کہ ملک یو پی اے حکومت کے دور اور ان کی حکومت کے دور کی کارگزاریوں کا موازنہ کریں، تبھی صحیح تصویر سامنے آئے گی اور لوگوں کو سچ کا پتہ چلے گا۔

وزیر اعظم کی اسی بات کا کرناٹک کانگریس نے جواب دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ایک ویڈیو میں کچھ اعداد و شمار کے ساتھ یو پی اے حکومت اور مودی حکومت کے دور کی کارگزاریوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔

گرافکس کے ذریعہ تیار کیے گئے اس ویڈیو میں جو سب سے پہلا اعداد و شمار پیش کیا گیا ہے وہ ہے جی ڈی پی کی شرح ترقی سے متعلق۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ یو پی اے حکومت میں 2004 سے 2008 کے دوران جی ڈی پی شرح ترقی اوسطاً 8.9 فیصد رہی جب کہ مودی حکومت میں 2014 سے 2018 کے درمیان اوسط شری ترقی 7.2 فیصد رہی۔ یعنی تقریباً دو فیصد کی کمی۔

یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

اسی طرح زراعتی شعبہ میں اسی مدت میں زراعتی شرح ترقی سے متعلق بتایا گیا ہے کہ یو پی اے دور میں یہ 3.8 فیصد تھی جو مودی حکومت میں نصف ہو کر 1.9 فیصد رہ گئی ہے۔

یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

ایک دیگر اعداد و شمار اس ویڈیو میں ایسا ہے جس کا آج چہار جانب تذکرہ ہے۔ یہ اعداد و شمار روزگار سے منسلک ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ یو پی اے حکومت میں 2009 سے 2011 کے درمیان 28.01 لاکھ روزگار پیدا ہوئے جب کہ مودی حکومت کے دوران 2014 سے 2018 کے درمیان محض 8.08 لاکھ روزگار ہی پیدا ہوئے۔

یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

عام لوگوں کی زندگی سے جڑے ایک دیگر اعداد و شمار کو پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2009 میں ایل پی جی سلنڈر کی قیمت 279.70 روپے تھی جو 2017 میں بڑھ کر 479.77 روپے ہو گئی ہے۔

یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

حکومت ملک کی معاشی صحت کی بات کرتی ہے، لیکن اس ویڈیو میں پیش اعداد و شمار کچھ دوسری ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس کے مطابق 2013-14 میں ملک میں اندرونی قرض 42.4 لاکھ کروڑ تھا جو مودی حکومت میں 2017-18 کے دوران 61.8 لاکھ کروڑ ہو گیا ہے۔

یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

اسی طرح باہری قرض سے متعلق اعداد و شمار بھی کچھ الگ ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 2013-14 میں ملک پر باہری قرض 37.44 لاکھ کروڑ تھا جو 2017-18 میں بڑھ کر 43.72 لاکھ کروڑ ہو گیا ہے۔

یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

اس ویڈیو میں ایک ایسا اعداد و شمار بھی پیش کیا گیا ہے جس میں مودی حکومت یو پی اے حکومت سے آگے ہے۔ یہ اعداد و شمار ہے حکومت کی کارگزاریوں کی تشہیر پر خرچ ہونے والے پیسے سے متعلق۔ پیش کردہ گرافکس کے مطابق یو پی اے کے دور میں تشہیر پر ہر سال صرف 265.82 کروڑ روپے خرچ ہوئے جب کہ مودی حکومت میں یہ خرچ بڑھ کر 1071.56 کروڑ روپے سالانہ ہو گیا ہے۔

یو پی اے حکومت سے موازنہ مودی کے لیے مہنگا پڑا

ویڈیو کے آخر میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کی صلاح پر پیش اعداد و شمار ملک کے سامنے ہیں اور لوگوں کو طے کرنا ہے کہ بغیر کام کیے صرف تشہیر کے سہارے اپنے کام کا شمار کرانے والی حکومت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔