بوفورس معاملہ: راجیو گاندھی کو بدنام کرنے والے مودی بنے ’جھوٹے نمبر 1‘
سی بی آئی نے دہلی کی عدالت میں جانکاری دی کہ وہ بوفورس معاملہ کی دوبارہ جانچ نہیں کرانا چاہتی۔ پرائیویٹ عرضی دہندہ اجے اگروال نے بھی دوبارہ جانچ کی اپنی عرضی واپس لینے کی خواہش ظاہر کی۔
ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ ’سی بی آئی‘ پی ایم مودی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے اور یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ پی ایم جھوٹوں کے سردار ہیں۔ یہ دونوں باتیں ثابت ہوئی ہیں آج سی بی آئی کے ذریعہ دہلی کی ایک عدالت میں اس اپیل کے بعد جس میں بوفورس معاملہ کی دوبارہ جانچ والی عرضی واپس لینے کی بات کہی گئی۔ جس ’بوفورس‘ کا حوالہ دے کر گزشتہ دنوں پی ایم مودی نے آنجہانی راجیو گاندھی کو ’بدعنوان نمبر 1‘ کہہ ڈالا تھا، سی بی آئی نے اپنی عرضی واپس لے کر سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پاک اور صاف و شفاف ٹھہرا دیا ہے۔
دراصل آج سی بی آئی نے دہلی کی عدالت میں جانکاری دی کہ وہ اب بوفورس معاملہ کی جانچ نہیں کرانا چاہتی۔ ایجنسی نے اس معاملے کی دوبارہ جانچ کی اجازت سے متعلق یکم فروری 2018 کو داخل عرضی واپس لینے کی بات کہی جس کے بعد عدالت نے انھیں اس کی اجازت دے دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بوفورس معاملہ کی دوبارہ جانچ کے لیے ایک پرائیویٹ عرضی دہندہ اجے اگروال نے بھی درخواست دے رکھی تھی اور انھوں نے بھی اپنی عرضی واپس لینے کی خواہش ظاہر کر دی۔ عدالت نے اجے اگروال کے وکیل کو اس کے لیے ڈانٹ بھی لگائی اور ان کے ’لوکس اسٹینڈی‘ یعنی حلقہ اختیار پر سوال کیا۔ عدالت اجے اگروال معاملہ پر آئندہ 6 جولائی کو سماعت کرے گی۔ ذرائع کے مطابق عرضی دہندہ پر عدالت نے جرمانہ لگانے کی بات بھی کہی ہے۔
بہر حال، سی بی آئی کے ذریعہ دوبارہ جانچ کی عرضی واپس لیے جانے کے بعد کئی طرح کے سوال اٹھائے جانے لگے ہیں اور سوشل میڈیا پر تو پی ایم مودی اور بی جے پی کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ الیکشن سے پہلے بوفورس معاملہ اٹھائے جانے اور پھر الیکشن کے آخر میں قدم پیچھے کھینچنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ بی جے پی اس ایشو کو اٹھا کر سیاسی سطح پر فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اور اس کے لیے سی بی آئی کا استعمال کیا گیا۔ یہ بات اس لیے بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں بوفورس کا نام لے کر آنجہانی راجیو گاندھی کو ’بدعنوان نمبر 1‘ کہہ ڈالا تھا جس کی تنقید کئی اپوزیشن پارٹی لیڈران اور دانشور حضرات نے کی تھی۔ سبھی نے الیکشن کے وقت پی ایم مودی کے ذریعہ بوفورس اور راجیو گاندھی کا نام لیے جانے کو ’سیاسی فائدہ‘ اٹھانے کی کوشش قرار دیا تھا۔ اب جب کہ الیکشن اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے اس لیے سی بی آئی نے اپنے قدم پیچھے کھینچ لیے ہیں۔ ایک ٹوئٹر ہینڈل پر تو یہاں تک لکھا گیا ہے کہ ’’اب بوفورس کی فائل 2024 میں کھلے گی، ٹھیک الیکشن سے پہلے۔‘‘
ایک دیگر ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا گیا ہے کہ ’’بوفورس کی جانچ بند، سی بی آئی اور عرضی دہندہ بی جے پی لیڈر نے درخواست واپس لی۔ الیکشن ختم، ایشو ختم۔ مگر یہاں عدالت نے درخواست دہندہ پر جرمانہ لگانے کی بات بھی کہی ہے۔ لیکن صرف جرمانہ نہیں، ایسے لوگوں کو تو جیل میں ڈال دینا چاہیے۔‘‘
قابل غور ہے کہ بوفورس معاملہ میں راجیو گاندھی کو بہت پہلے ہی کلین چٹ مل چکی ہے اور واجپئی حکومت نے بھی اس تعلق سے سپریم کورٹ جانے سے منع کر دیا تھا۔ جب پی ایم نریندر مودی نے راجیو گاندھی کو ’بدعنوان نمبر 1‘ کہا تو کانگریس نے ان کے بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی جس میں پارٹی ترجمان پون کھیڑا نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’2003 میں واجپئی جی کی حکومت تھی اور ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل مکل روہتگی تھے۔ دہلی ہائی کورٹ میں انھوں نے کہا تھا کہ راجیو گاندھی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس بیان کے بعد اٹل بہاری واجپئی نے راجیو گاندھی کے خلاف سپریم کورٹ جانے سے منع کر دیا تھا۔‘‘ پون کھیڑا نے مزید کہا تھا کہ ’’نریندر مودی ملک کے پہلے ایسے پی ایم ہیں جو اپنی ناکامیوں کو دوسرے کے اوپر تھوپ دیتے ہیں۔ وہ آج بھی اپنی ناکامیوں کے لیے جواہر لال نہرو، راجیو گاندھی اور پچھلی کانگریس حکومتوں کو ذمہ دار بتا رہے ہیں۔‘‘
سی بی آئی اور اجے اگروال کے ذریعہ بوفورس معاملہ میں قدم پیچھے لیے جانے کے بعد کانگریس لیڈر سلمان سوز کا کیا گیا ایک ٹوئٹ بھی قابل غور ہے جو بہت مناسب طریقے سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ بوفورس اور راجیو گاندھی کا نام لے کر پی ایم مودی صرف انتخابی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ وہ اپنے ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ:
- 2004: دہلی ہائی کورٹ نے بوفورس ملزمین کے خلاف کیس خارج کیا۔
- 2018: سپریم کورٹ نے سی بی آئی کی اس عرضی کو خارج کر دیا جس میں بوفورس ملزمین کو بے قصور قرار دیئے جانے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
- 2019 (آج): سی بی آئی نے بوفورس معاملہ کی دوبارہ جانچ کے لیے داخل عرضی کو واپس لےلیا۔
- جو شخص سی بی آئی کو کنٹرول کر رہا ہے وہ صرف مرے ہوئے لوگوں پر کیچڑ اچھال سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔