بی جے پی اپنے ارکان کی بھی نہیں سن رہی

سبرامنیم سوامی کے ذریعہ پی آئی ایل داخل کرنے کی بات کہے جانے اور راج کمار سینی کے باضابطہ سبھاش برالہ سے استعفیٰ کے مطالبہ کے بعد بھی بی جے پی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی

سبھاش بھرالا
سبھاش بھرالا
user

قومی آواز بیورو

چنڈی گڑھ: بی جے پی کی حکومت جس ریاست میں بھی ہے وہاں کا نظام بری طرح متاثر ہے۔ ریاست کے انتظام و انصرام کی حالت اس قدر دگر گوں ہے کہ عام لوگ تو دور، خاص لوگ بھی خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے غنڈہ قسم کے لوگوں کی تو جیسے چاندی ہو گئی ہے۔ لیکن چنڈی گڑھ میں ہریانہ بی جے پی صدر سبھاش برالہ کے بیٹے وکاس برالہ کے ذریعہ ایک آئی اے ایس افسر کی بیٹی کا پیچھا کرنے کا معاملہ بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ بی جے پی کے کئی لیڈران بشمول ممبرپارلیمنٹ سبرامنیم سوامی، چنڈی گڑھ کی ممبر پارلیمنٹ کرن کھیر، کروکشیتر کے ممبر پارلیمنٹ راج کمار سینی نے پارٹی میں مخالفانہ آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے۔ حالانکہ بی جے پی اعلیٰ کمان پر اس سب کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور اس نے ہریانہ بی جے پی صدر سبھاش برالہ سے استعفیٰ مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ جو بی جے پی خواتین کے تحفظ کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہے اس نے آئی اے ایس کی بیٹی کو ہی یہ کہتے ہوئے ’کٹہرے‘ میں کھڑا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اتنی رات میں گھر سے باہر کیوں تھی۔

سبرامنیم سوامی کے ذریعہ پی آئی ایل داخل کرنے کی بات کہے جانے اور راج کمار سینی کے باضابطہ سبھاش برالہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کے با وجود بھی پارٹی اعلیٰ کمان کی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔سوامی نے تو پولس کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ پہلے وکاس برالہ پر غیر ضمانتی دفعہ لگائی گئی تو پھر اسے ضمانت کیسے مل گئی۔ یقیناایسا کسی باہری دباؤ کے سبب ہوا ہے۔معاملہ اس قدر سنگین ہے پھر بھی بی جے پی میڈیا ڈپارٹمنٹ باقاعدہ بیان جاری کر رہی ہے کہ جانچ رپورٹ سے پہلے استعفیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ وہی بی جے پی ہے جو کانگریس لیڈران سے ہر چھوٹی بات پر استعفیٰ مانگنے سے پرہیز نہیں کرتی۔ شاید بی جے پی بھول گئی ہے کہ جیسکا لال مرڈر کیس میں بیٹے کے ملزم ہونے پر سابق کانگریس لیڈر ونود شرما نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن یہ سب تو اخلاقیات اور اقدار کی باتیں ہیں جس سے بی جے پی کوسوں دور ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Aug 2017, 2:09 PM