’کیا ہم ایک گیس چیمبر میں رہ رہے ہیں؟‘

حالاتِ حاضرہ

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

حمرا قریشی

دہلی میں زہریلی دھند پھر واپس آ گئی ہے اور اس بار یہ دم گھوٹنے والی دھند کچھ زیادہ ہی شد و مد سے آئی ہے۔ ہم دہلی والوں کے لیے اس دھند سے پیدا ہونے والی فضائی کیفیت کو بیان کرنا ذرا مشکل ہے۔ فضا میں ایک عجیب و غریب غبار سا ہے جس میں دھواں اور کہرا بھی ملا ہوا ہے جس سے پوری فضا بوجھل سی ہو رہی ہے۔ آنکھوں میں مستقل ایک جلن کا احساس ہے حالانکہ آنکھوں سے پانی نہیں بہہ رہا ہے۔ ناک اور گلا بند بند سا ہے۔ سانس لینے میں دقت کی وجہ سے پھیپھڑوں پر زور پڑ رہا ہے۔ ان تمام کیفیات کے سبب دل بھی کچھ بجھا بجھا سا ہے۔

ان دنوں ہم ایک دارالخلافہ یا ایک ’گیس چیمبر‘ میں جی رہے ہیں یہ امتیاز کرنا ذرا مشکل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ ہر شخص چھینک رہا ہے یا کھانس رہا ہے۔ بس ایک عجب عالم ہے جو بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پتہ نہیں یہ حالات کب تک برقرار رہیں گے، یا ہم ان حالات میں کب تک برقرار رہیں گے، کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔

’کیا ہم ایک گیس چیمبر میں رہ رہے ہیں؟‘

ذرا ہمارے حاکموں سے کہیے کہ وہ اپنی آرام گاہوں، بیٹھکوں اور دفاتر کے کمروں سے ’ائیر پیوریفائر‘ پھینک کر عام دہلی والوں کی طرح کھلی فضا میں باہر نکلیں تاکہ ان کو یہ احساس ہو سکے کہ آخر ہم عام لوگ ان حالات میں کیسے جی رہے ہیں! مجھے تو اب یہ لگنے لگا ہے کہ آج کے حاکموں سے بہتر تو وہ دیرینہ حاکم تھے جو ایک بار میں ہی سینکڑوں کو موت کے گھاٹ اتا ردیتے تھے جب کہ آج کے حاکم تڑپا تڑپا کر جان لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ہر روز مر رہے ہیں اور یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے۔

دہلی کی موجودہ فضائی کیفیت کسی میڈیکل ایمرجنسی سے فرق نہیں ہے اور ایک ایمرجنسی کی طرح اس صورت حال سے نمٹنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ کیجریوال کا ’آڈ-ایون‘ فارمولہ محض تھوڑی مدت کے لیے نہیں بلکہ لمبے عرصے کے لیے لاگو کیا جانا چاہیے۔ میٹرو کے کرائے کم سے کمتر کر دیے چاہئیں۔ ائیر کنڈیشنز اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں اور دوسری اشیاء پر فوراً پابندی لگنا چاہیے۔ مٹ میلی سڑکوں پر اور کوڑے خانوں میں پانی چھڑکا جانا چاہیے۔ اگر میونسپل افسران کا یہ خیال ہے کہ اس کام کے لیے اتنا بڑا عملہ نہیں ہے تو میری رائے میں قید خانوں میں مقید لوگوں کو رہا کر ان سے یہ کام کرانا چاہیے۔ جیسے بھی ہو دہلی کی فضا پھر سے درست ہو تاکہ لوگ کھلی فضا میں سانس تو لے سکیں...۔

ستارہ دیوی

ستارہ دیوی سے میری ملاقات سنہ 1999 میں ہوئی تھی۔ میں ان سے محض ایک بار ہی ملی۔ لیکن ان کے بارے میں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ نظریاتی اعتبار سے کٹر پسند بلکہ کسی حد تک فرقہ پرست تھیں۔ مجھ سے بات چیت کے دوران اپنے بارے میں بے تکان بولتی رہیں۔ اس میں ان کے کتھک کے قصہ، ان کے پرانے معاشقے، بنارس کی باتیں، ان کے اپنے سیاسی خیالات، سب کچھ ہی شامل تھا۔

ستارہ دیوی
ستارہ دیوی

وہ ایک صاحب کے گھر پرائیویٹ محفل میں کتھک کرنے کے لیے مدعو کی گئیں تھیں اور اس محفل کے مہمان خصوصی خشونت سنگھ تھے۔ اور اس محفل میں 79 برس کی ستارہ دیوی (سنہ 1999 میں ان کی یہی عمر تھی کیونکہ وہ 1920 میں پیدا ہوئی تھیں) کو رقص کرنا تھا۔ حالانکہ انھوں نے رقص کیا، لیکن ان کی عمر ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ ایک تو ان کے جسم سے عمر جھلک رہی تھی، پھر چہرے کے ہاؤ بھاؤ میں بھی ایک کرختگی تھی۔ اور میک اپ بھی کچھ بے ہنگم سا تھا۔ ان کے رقص میں اب وہ آب و تاب نہیں بچی تھی جو کبھی ان کا وطیرہ ہوتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اس شام یامنی کرشنا مورتی اور اوما شرما کے آگے پھیکی ہی رہیں کیونکہ ان کے بعد ان دونوں نے بھی رقص کیا تھا۔

جب رقص ختم ہو گیا تو انٹرویو کے درمیان بلاجھجک انھوں نے اپنے سیاسی خیالات کا اظہار مجھ سے کرنا شروع کر دیا۔ میں ان کا انٹرویو کرتی رہی اور حیرت سے ان کو تکتی رہی۔ ان کے جواب اکثر مجھ کو لاجواب کر رہے تھے۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ستارہ دیوی جیسی رقاصہ ایک کٹر اور رجعت پسند سیاسی جماعت کے لیے ایسی ہمدردی رکھتی ہوں گی۔ مجھ کو شاید حیرت زدہ دیکھ کر وہ بولیں ’’کیوں نہیں، آخر وہی تو مسلمانوں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی بولیں کہ ممبئی میں محض مراٹھی ہی رہنے چاہئیں۔ انھوں نے پوری شد و مد سے پاکستان سے ہندوستان آنے والے آرٹسٹوں پر پابندی لگائے جانے کی تائید کی۔ فلم ’فائر‘ پر بھی پابندی کی حمایت کی اور حد تو یہ ہے کہ دلیپ کمار کے گھر پر جو حملہ ہوا تھا اس کو بھی بجا قرار دیا۔

آس پاس بیٹھے لوگوں نے جب ان کے خیالات پر کچھ ناک بھوں چڑھائی تو انھوں نے بہ آواز بلند اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ اس پر کچھ لوگ چراغ پا ہو گئے۔ بولے ’’ان خیالات کو سن کر آج رات سونا دشوار ہو جائے گا۔‘‘

اس شام پھر میں اور خشونت سنگھ ایسے کردار بہت دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ خشونت نے تو اعلان کر دیا ’’میں اب ایسے فرقہ پرست اور بدعنوان کرداروں سے قطعاً نہیں ملوں گا... میں ان سے کسی قسم کا ربط و ضبط نہیں رکھ سکتا۔‘‘

ستارہ دیوی نے اس کے بعد ایک بار مجھ سے پھر ملاقات کی خواہش ظاہر کی (شاید ایک اور انٹرویو کے لیے) لیکن میں نے سختی سے انکار کر دیا۔ میں نے ان سے یہ بھی جتا دیا کہ ان کے خیالات کافی فرقہ پرست ہیں۔ یہ بھی کہا کہ ان کا رجحان اب فن چھوڑ کر سیاست کی جانب زیادہ ہے۔ مجھے تو یہ لگتا تھا کہ وہ کسی دائیں بازو کی پارٹی سے انتخاب لڑنے کی خواہش مند تھیں۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ سنہ 2002 میں جب ان کو پدم شری ملا تو انھوں نے اس کو لینے سے انکار کر دیا اور بڑے بھونڈے انداز میں اعلان کیا کہ وہ تو بھارت رتن کی مستحق ہیں۔ وہ اپنے فن کے بارے میں بڑے بھونڈے پن سے اپنی تعریف خود کرتے جھجکتی نہیں تھیں۔ اور اس میں ان کو ذرہ برابر شرم بھی نہیں آتی تھی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Nov 2017, 1:46 PM