ڈوسو صدر انکت اے بی وی پی سے برطرف، ’کورٹ کے ڈر سے لیا فیصلہ‘: این ایس یو آئی

اے بی وی پی نے ڈوسو صدر انکت بسویا کو برطرف کرتے ہوئے عہدہ صدارت سے بھی استعفی دینے کو کہا ہے۔ کانگریس کی طلبا تنظیم این ایس یو آئی نے اس کارروائی کو عدالت کے خوف میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے جعلی ڈگری تنازعہ کی وجہ سے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین (ڈوسو) کے صدر انکت بسویا کو عہدہ سے استعفی دینے کے ساتھ ہی انکوائری مکمل ہونے تک تنظیم سے برطرف کردیا ہے۔

اے بی وی پی کی میڈیا کوارڈینیٹر مونیکا چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ جعلی ڈگری معاملے کی انکوائری مکمل ہونے تک بسویا کو تنظیم کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بسویا کو ڈی یو ایس یو صدر کے عہدہ سے استعفی دینے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔

اے بی وی پی کی اس کارروائی کو این ایس یو آئی نے 20 نومبر کو آنے والے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خوف میں لیا گیا فیصلہ قرار دیا ہے۔ این یو ایس آئی کی جوائنٹ سکریٹری اور این ایس یو آئی انچارج روچی گپتا ڈوسو کے چناؤ پھر سے کرانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ڈی یو انتظامیہ انکت بسویا کی مدد کرنا جاری رکھتی ہے تو وہ اس کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔

روچی نے کہا ’’بسویا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کی راہ پر چلنے کی وجہ سے ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ ان کا بی جے پی میں لمبا اور کامیاب کیرئر رہے گا۔‘‘

ڈی یو ایس او کے انتخابات ستمبر میں ہوئے تھے جس میں اے بی وی پی صدر، نائب صدر اور سکریٹری کے عہدوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ کانگریس کی حمایت والی نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے الزام لگایا تھا کہ بسویا نے جعلی ڈگری کے ذریعہ دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

این ایس یو آئی نے اپنے الزامات کے بعد ترو ولور یونیورسٹی کا ایک خط بھی جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بسویا نے بی اے کی جو سند دہلی یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے جمع کرائی ہے وہ جعلی ہے۔

ترو ولور یونیورسٹی کے رجسٹرار کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ بسویا نے ان کی یونیورسٹی میں کبھی داخلہ ہی نہیں لیا اور نہ کبھی یونیورسٹی کے کسی کالج کے طالب علم رہے ہیں۔ رجسٹرار نے لکھا کہ بسویا نے جو سند جمع کرائی ہے وہ جعلی ہے اور یونیورسٹی کی طرف سے انہیں کوئی سند جاری نہیں کی گئی ہے۔ بسویا کی ڈگری کا معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں بھی چل رہا ہے۔ بسویا نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر دہلی یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا تھا۔

(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔