لاہور رکشوں کا بین الاقوامی ہیڈکوارٹر

مرشد فرماتے ہیں کہ لاہور سے ایک بٹ صاحب جاپان گئے، انہیں رکشہ نظر اور پسند آگیا، بس لاہور لے آئے۔ یہ تھوڑے ہی عرصے میں پورے شہر میں طاعون کی طرح پھیل گیا۔

تصویر بشکریہ facebook.com/akbar.mayo
تصویر بشکریہ facebook.com/akbar.mayo
user

اکبر میو

نپولین نے کہیں لکھا ہے کہ مذہب امیروں کی ایجاد ہے تا کہ غریب انہیں قتل نہ کریں۔ جس طرح 19 ویں صدی کے اوائل میں نپولین نے یورپ میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے کر کے قتل کئے اس سے لگتا ہے کہ نہ تو اس کا کوئی دین تھا نہ ہی ایمان۔ سن 1814 میں نپولین نے گھٹنے ٹیکے تو یورپ کے آسمان سے خون کے بادل چھٹے۔ مستقبل کے یورپ میں طاقت کا توازن بحال کرنے کے لئے آسٹریا کے شہر ویانا میں دو درجن سفیروں کی بیٹھک منعقد ہوئی۔ اس کانگریس میں جرمنی کے محکمہ جنگلات کے ایک افسر کارل ڈریز نے انسانی طاقت سے چلنے والی چار پہیوں والی گاڑی نمائش کے لئے پیش کی۔ شرف مقبولیت نہ ملنے پر کارل جرمنی میں واقع اپنے چھوٹے سے قصبے میں واپس آگئے۔ اگلے ہی روز گاڑی کو کھول پٹکا۔

دو سال فکر و بچار کے گھوڑے سر پٹ دوڑتے رہے اور پھرایک دن کارل نے لکڑی کے ڈنڈوں میں دو پہیووں کو اس طرح فٹ کیا کہ فزکس آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ کارل ڈریز سے پہلے تمام انسانوں کو یہی لگتا رہا کہ جو چیز دو پہیووں پہ کھڑی نہیں ہو سکتی وہ چلے گی کیسے۔ کارل ڈریز نے سائیکل تو چلا لی لیکن اسے بریک نہ لگا سکا۔ ٹکرانے کے خدشے کے باعث حکومت وقت نے اس پہ پابندی لگا دی۔ بہر حال دنیا کو سائیکل دے کر 19ویں صدی کے وسط میں کارل خالق برحق سے جاملا۔ قریب 20 برس بعد انسانی طاقت سے چلنے والی سائیکل نے جاپان میں رکشے کو جنم دیا۔ یہ تین پہیؤوں پہ چلنے والی مشین شروع میں وزن کھنچنے کے کام آئی اور پھر سواریاں۔ چائینہ کے راستے جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلوں سے ٹکراتی کللکتہ کی بندر گاہ پہ لنگرانداز ہوئی۔ آج کا آٹو رکشہ اسی مشین کی نئی شکل ہے جو کہ انسانی آلکس اور سستی کی مد میں نمودار ہوئی ہے۔

قارئین اوپر دی گئی معلومات کا مقصد آپکو لاہوری رکشے کے آباؤ اجداد سے آگاہ کرنا تھا۔ مرشد فرماتے ہیں کہ لاہور سے ایک بٹ صاحب جاپان گئے۔ وہاں انہیں رکشہ نظر اور پسند ایک ساتھ آیا۔ سب سے بڑی خوبی یہ اچھی لگی کہ رولا زیادہ ڈالتا تھا چلتا کم تھا۔ بس لاہور لے آئے۔ یہ تھوڑے ہی عرصے میں پورے شہر میں طاعون کی طرح پھیل گیا۔ لاہور میں مشہور ہے کہ رکشہ کبھی مرتا نہیں۔ یعنی آج تک جو بھی رکشہ لاہور میں لایا گیا ہے یا بنایا گیا ہے وہ جب بھی ٹوٹ کے بکھرا ہو اسکی روح لاہور کی تنگ راہوں پہ آج بھی مرغولےکھاتی دوڑتی ہے۔

لاہور میں رکشوں کی ایک بھاری اکثریت کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ’’پاک فوج کو سلام ‘‘۔ حالنکہ دن رات 21 توپوں کی سلامی یہ عوام کو دیتے ہیں۔ اور پھر ٹو سٹروک کی آواز تو اتنی ہنگامہ خیز ہے کہ غلطی سے واہگہ بارڈر کا رخ کر لے تو سارا امرتسر کانپنا شروع ہو جاتا ہے۔ خلانوردی کے آغاز میں ہی یہ راز افشاں ہوا تھا کہ زمین کے کچھ اہم مقام خلا سے نظر آتے ہیں۔ اگر آوازخلا کی یاترا کر سکتی تو ضرور شیرپاؤ پل پہ چڑھتے ہوئے کسی سرکش چنگ چی کی آواز دم توڑنے سے پہلے خلا میں بھونچال بپا کرتی۔ خلائی مخلوق کی قسمت۔

کہتے ہیں رکشے، مولوی اور ٹورنیڈو کے اگلے ٹرن کے بارے میں کوئی بھی دعوی مسلمہ نہیں ہوتا۔ کیا پتہ کب کدھر مڑ جائیں، کس کی حمایت میں پلٹ جائیں۔ جہاں تک صوتی کاردکردگی کا تعلق ہے مولوی اور رکشے میں صرف داڑھی کا فرق ہے۔ ایسے ہی کسی بھولے بادشاہ نے لاہور کو باغات کا شہر کہہ دیا ہے ورنہ یہ بلا شرکت غیرے رکشہ جات کا بین اقوامی ہیڈ کواٹر ہے۔ رکشے والے چونکہ گھر سےتصادم کی نیت سے نکلتے ہیں اسلئے انہیں سڑک پے ہارن بجانے کی نوبت نہیں پیش آتی۔ مرشد فرماتے ہیں کہ جس شخص نے رکشہ چلایا ہو وہ رکشہ چلانا تو بھول سکتا ٹکر مارنا نہیں۔ اللہ ہماری ہر قسم کے رکشوں سے رَکشَا کرے۔ لاہوری رکشوں کی کئی قسمیں ہیں مثلاً سنگل اسٹروک ، ٹو اسٹروک اور تھری اسٹروک۔ میڈیکل سائنس کے مطابق چوتھے اسڑوک کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اتنے رولے کے باوجود بھی رکشہ وقت اور منزل دونوں سے پیچھے رہتا ہے۔ سست رفتاری کی وجہ سے تھائی لینڈ والوں نے اسے ٹک ٹک کا نام دیا اور بدنام ہوئے ہمارے مصباح الحق۔ جس رفتار سے پاکستان سیاسی و معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے یہی گمان ہوتا ہے کہ بھولے کے رکشے پہ بیٹھ کر ہچکولے کھاتا کاہنے کاچھے کی طرف جارہا ہے۔

مرشد فرماتے ہیں کہ نپولین کی مذہب کی ایجاد والی بات کے مصداق میں دیکھا جائے تو جمہوریت بھی امیروں اور زورآوروں کی ایجاد ہے تا کہ وہ غریبوں کی رضامندی سے ان پہ حکومت کر سکیں ۔آپ بجلی نہ آنے پے واپڈا کو، لائن میں لگوانے پر نادرا کو، لیٹ آنے پے ریل کو، قرض لینے پر حکومت کو، ٹکٹ نہ ملنے پے پارٹی کو، انصاف نہ ملنے پے عدالت کو، وعدہ ایفا نہ کرنے پے سیاستدان کو، عزت نہ ملنے پے دوستوں کو، نیٹ نہ چلنے پے پی ٹی سی ایل کو، شور مچانے پہ رکشے والے کو تو گالی دے سکتے ہیں لیکن جس قوت نے 70 سال سے اس ملک کو اپنی لونڈی بنا کے رکھا ہوا ہے اس کی طرف انگلی بھی اٹھانا نہ صرف غداری ہے بلکہ گناہ کبیرہ کے مترادف ہے۔ کیا سمجھے کمپنی گارڈن؟

(مضمون نگار پاکستان میں ڈپٹی کمشنر اِنکم ٹیکس سیلز ٹیکس کے عہدے پر فائز ہیں۔

ای میل : akbarmayo@gmail.com)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔