سہ روزہ ’اُردو پاپولر کلچر کانفرنس‘ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر
نئی دہلی: ’اُردو پاپولر کلچر کانفرنس‘ کے آج تیسرے اور آخری دن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اُردو زبان کی ترویج اور اس کے فروغ سے متعلق مختلف شعبوں پر محیط مقالے پڑھے گئے۔ گزشتہ دو دنوں کی طرح آج بھی انگریزی اور اُردو دونوں زبان میں مقالے پڑھے گئے اور یہ مقالے نہ صرف سامعین کے علم میں اضافہ کا باعث ہوئیں بلکہ اُردو کی ترقی کے اہم پہلوﺅں سے روشناس کرانے میں بھی کامیاب ہوئیں۔’تصویرِ اُردو‘ اور ’سنٹر فار انڈین لینگویجز‘ (جے این یو) کے زیر اہتمام منعقدہ اس سہ روزہ کانفرنس میں آج پہلا سیشن کیتھرین ہین سین کی سرپرستی میں ہوا جس میں پہلا مقالہ مریم سکندر (ایس او اے ایس، یونیورسٹی آف لندن) نے پڑھا۔ انھوں نے منشی سجاد حسین کے ’اودھ پنچ‘ کی روشنی میں بیشتر باتیں کیں۔ مریم نے ’اودھ پنچ‘ میں شائع کارٹون، فیچر آرٹیکل اور مزاحیہ اسکیچ کے حوالے سے نہایت دلچسپ باتیں کیں۔ دوسرا مقالہ سلطانہ واحدی نے ’اودھ اخبار اور اس کے اشتہارات‘ کے موضوع پر پیش کیا۔ اپنے مقالے میں انھوں نے اشتہارات کی اہمیت اور اس سے اخبارات کو پہنچنے والے فوائد پر بھرپور روشنی ڈالی۔ اس سیشن کا آخری مقالہ یوسف سعید نے پڑھا جس میں شروعاتی دور کے اردو رسالوں میں جادوئی علاج اور میڈیکل سے متعلق اشتہارات کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ انھوں نے گزشتہ دور کے رسالوں میں شائع اشتہارات کی نوعیت اور ان کی افادیت پر سیر حاصل بحث کی اور یہ سوال بھی قائم کیا کہ آخر آج کے اُردو رسائل میں موجود اشتہارات پہلے کی طرح مفید کیوں ثابت نہیں ہوتے؟
’کلچر اور سنیما‘ کے عنوان سے منعقد دوسرے سیشن کی سرپرستی معین الدین جینابڑے نے کی جس میں تین مقالے پڑھے گئے۔ پہلا مقالہ صبا بشیر کے ذریعہ پیش کیا گیا۔ انھوں نے ’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘ نغمہ کے حوالے سے بات کی اور فلموں میں کلاسیکی نغموں کو رواج دینے کے لیے کی گئی شاعروں کی کوشش کو داد و تحسین سے نوازا گیا۔دوسرا مقالہ یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر (یو کے) کی سارہ رحمن نیازی نے پڑھا اور ان کا موضوع ہندوستان میں 1920 سے 1950 کے درمیان سنیما اور اُردو عوام تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کئی لوگوں کے لیے اُردو صرف ایک زبان نہیں تھی بلکہ ایک تہذیب تھی۔ بمبئی سنیما میں ہر طرح کی تہذیبوں کا سنگم دیکھنے کو ملتا تھا جہاں آرٹسٹ الگ الگ علاقوں سے آتے تھے، اُردو نے ان لوگوں کو جوڑنے کا کام کیا۔ اس سیشن کا تیسرا مقالہ بھی ایک خاتون نے ہی پڑھا جن کا نام ہے انیلا زیڈ بابر۔ نئی دہلی، آسٹریلیا اور پاکستان جیسے ممالک میں اُردو پر خاص نظر رکھنے والی انیلا نے اُردو زبان سے متعلق پاکستان سے جڑی اپنی یادیں اور تجربات لوگوں کے سامنے پیش کیں۔ ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ جب محبت و نفرت ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں تو اُردو کا اندازِ بیان کتنا لطیف ہوتا ہے۔
یوسف سعید کی سرپرستی میں ہوئے تیسرے سیشن میں رحمن عباس (مصنف)، شاذیہ عمیر (دہلی یونیورسٹی) اور فرانسسکا اورسینی (ایس او اے ایس، یونیورسٹی آف لندن) نے اپنے مقالے پیش کیے۔ رحمن عباس نے کونکن کی ثقافت کے پس منظر میں شادی بیاہ کے گیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے بتایا کہ اُردو کی ترویج میں کونکنی گیتوں کا خاص اثر رہا ہے، اور وہ اس طرح کہ پہلے مخلوط زبان میں گیت گائے جانے لگے، پھر اُردو کی عوامی مقبولیت کچھ یوں سر چڑھ کر بولنے لگی کہ مقامی بولی کے بجائے مکمل گیت اُردو میں ہی گائے جانے لگے۔ شاذیہ عمیر نے اپنے مقالے میں اُردو لوک گیت اور اس میں خواتین کی جذبات نگاری کو موضوع بنایا۔ انھوں نے کچھ گیت گا کر لوگوں کو محظوظ بھی کیا۔ تیسرا مقالہ فرانسسکا نے اسکائپ کے ذریعہ پڑھا۔ انھوں نے معروف اُردو اور مسلمانوں کے ربط کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی اور کچھ سوالات بھی قائم کیے۔
چوتھے اور آخری سیشن کی سرپرستی اے سین پو نے کی۔ کرن احمد (قائم اعظم یونیورسٹی، پاکستان) نے بذریعہ اسکائپ پہلا مقالہ پیش کیا جس کا موضوع تھا اُردو رائٹرس، ریڈرس اور فکشن۔ انھوں نے ان تینوں ہی عنصر کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف دور کے حالات ناظرین کے سامنے پیش کیے اور پاکستان کے حوالے سے کئی باتیں کیں۔ دوسرا مقالہ رزاق خان (گوٹنجن یونیورسٹی، جرمنی) نے پیش کیا۔ انھوں نے پاکستان کے ٹیلی ویژن ڈراموں میں اُردو زبان اور کلچر کے ساتھ ساتھ اس کی سیاست پر بھی کارآمد گفتگو کی۔
اس موقع پر سہ روزہ کانفرنس کے کنوینر پروفیسر مظہر مہدی اور منتظم یوسف سعید نے تقریب میں شامل ہونے اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس طرح کی تقریب سے صرف اُردو داں طبقہ ہی نہیں بلکہ غیر اُردو داں طبقہ میں بھی اُردو کے تئیں دلچسپی میں اضافہ ہوگا۔ ’انڈیا فاﺅنڈیشن فار دی آرٹس‘ (بنگلورو) کے ’آرٹس ریسرچ پروگرام‘ کے تعاون سے منعقدہ اس تقریب کے آخری دن لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی جن میں محمد کاظم، کفیل احمد، شفیع ایوب وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔