ہندوستان پہنچنے والے کورونا کے ’مہلک ترین ویرینٹ‘ ایکس ای کی علامات کیا ہیں؟

ایکس ای کا پہلا معاملہ برطانیہ میں 19 جنوری 2022 کو رپورٹ ہوا تھا اور اب تک اس کے تقریباً 637 معاملے درج کئے جا چکے ہیں۔ ہندوستان کے ممبئی شہر میں ایک 50 سالہ خاتون اس ویرینٹ سے متاثر پائی گئی ہے۔

کورونا کی علامتی تصویر / آئی اے این ایس
کورونا کی علامتی تصویر / آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: کورونا کے نئے ویرینٹ ’ایکس ای‘ کا ظہور ہو چکا ہے اور اس کا پہلا معاملہ ہندوستان کے ممبئی شہر میں پایا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ’ایکس ای‘ کورونا کے اومیکرون ویرینٹ کا ہی سب ویرینٹ ہے تاہم یہ اب تک پایا جانے والا کورونا کا مہلک ترین ویرینٹ ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اومیکرون کے سب ویرینٹ بی اے.2 کے مقابلہ ’ایکس ای‘ ویرینٹ 10 فیصد تک زیادہ متعدی معلوم دے رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق فی الحال اومیکرون ویرینٹ کے حصہ کے طور پر ایکس ای میوٹیشن کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ اومیکرون کی علامات میں بخار، گلے میں خراش، سردی-کھانسی اور جلد میں جلن شامل ہیں۔


ایکس ای کا پہلا معاملہ برطانیہ میں 19 جنوری 2022 کو رپورٹ ہوا تھا اور اب تک اس کے تقریباً 637 معاملے درج کئے جا چکے ہیں۔ ہندوستان کے ممبئی شہر میں ایک 50 سالہ خاتون اس ویرینٹ سے متاثر پائی گئی ہے اور یہ خاتون حال ہی میں جنوبی افریقہ سے لوٹی ہے۔

برطانیہ کی ہیلتھ ایجنسی کورونا کی تین اقسام ایکس ڈی، ایکس ای اور ایکس ایف کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ایکس ڈی بی اے.1 اومیکرون ویرینٹ کی ہی ایک ذیلی قسم ہے اور ایکس ایف ڈیلٹا اور بی اے.1 کے میل سے پیدا ہوا ہے۔ رپورٹ میں برطانیہ کی ہیلتھ سیکورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے) کے چیف میڈیکل آفیسر سوسان ہاپکنس کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ اس طرح کے ویرینٹ کو ریکامبیننٹ (دوبارہ پیدا ہونے والا) کے طور پر جانا جاتا ہے اور عموماً یہ قدرے جلدی ختم ہو جاتے ہیں۔


ایکس ای ویرینٹ کے معاملے تھائی لینڈ اور نیوزی لینڈ میں بھی پائے گئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس کے میوٹیشن کے بارے میں مزید کچھ کہنے سے پہلے تحقیقی ڈیٹا درکار ہے۔ ادارہ کا مزید کہنا ہے کہ اس بات کے پختہ ثبوت موجود نہیں ہیں کہ ایکس ای کی علامات بہت زیادہ خطرناک ہیں اور تاحال اومیکرون ویرینٹ کے تمام ذیلی ویرینٹ سے متاثرہ مریضوں میں ہلکی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔