ہندوستانی اعلیٰ سطحی وفد کی طالبان وزیر خارجہ سے ملاقات
اگست 2021میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے باوجود اب تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ البتہ نئی دہلی کابل حکومت کے ساتھ دھیرے دھیر ے قریب ہوتا نظرآ رہا ہے۔
ہندوستانی وفد کی وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے تعلقات اور اقتصادی اور راہداری جیسے امور پر بات چیت ہوئی۔ کابل حکومت کے ساتھ براہ راست اور سرکاری سطح پر نئی دہلی کے رابطے کی یہ تازہ ترین کڑی ہے۔ طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ بھارت کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے جمعرات کے روز کابل میں وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ ملاقات کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس ملاقات کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ طالبان قیادت کے ساتھ براہ راست اور سرکاری سطح پر اس ملاقات کے دوران افغانستان اور بھارت کے درمیان تعلقات نیز اقتصادی اور راہداری جیسے امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
اگست 2021میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے باوجود اب تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ البتہ یہ رفتہ رفتہ ظاہر ہوتا جارہا ہے کہ نئی دہلی کابل حکومت کے ساتھ دھیرے دھیر ے قریب ہو رہا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے ہندوستانی اہلکاروں کی طالبان وزیر خارجہ یا کسی طالبان رہنما سے ملاقات کے بارے میں فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے البتہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے متعلق سوشل میڈیا ایکس پر ایک بیان پوسٹ کیا ہے۔
بھارتی وفد کی قیادت ہندوستانی وزارت خارجہ میں پاکستان، افغانستان اور ایران امور کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ نے کی۔عبدالقہار بلخی نے اس ملاقات کے حوالے سے کئی پوسٹ کیں۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا،" دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو تاریخی قرار دیتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ ڈھائی سالوں میں افغانستان کو مختلف شعبوں میں نیز انسانی امداد فراہم کی ہے۔ مزید برآں مجموعی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے، منشیات کے غیر قانونی کاروبار کا مقابلہ کرنے نیز ملک میں داعش اور بدعنوانی کے خلاف اسلامی امارت افغانستان کے اقدامات کی تعریف کی۔"
بلخی کے مطابق بھارتی سفارت کار نے کہا کہ بھارت افغانستان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور چابہار بندرگاہ کے راستے تجارت کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ وزیرخارجہ امیر خان متقی نے انسانی امداد کے لیے بھارت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ" ہماری متوازن خارجہ پالیسی کے مدنظر امارت اسلامی افغانستان بھارت کے ساتھ اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، کیونکہ بھارت کو خطے میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔"
بلخی کے مطابق طالبان وزیر خارجہ نے بھارتی سفیر سے افغان تاجروں، مریضوں اور طلباء کے لیے ویزے جاری کرنے کے عمل کو تیز کرنے کی اپیل کی۔
ہندوستانی وفد نے کابل میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی۔ اس دوران افغانستان اور ایران امور کی انچارج ڈپٹی سکریٹری دیپتی جھروال بھی موجود تھی۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے بعد میں ایک پوسٹ میں کہا، "افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ سے ملاقات کی۔ انہوں نے افغانستان اور خطے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔"
"سابق صدر نے دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اور اچھے تعلقات کا ذکر کیا اور بالخصوص تعلیم کے شعبے میں ہندوستانی امداد اور تعاون کے لیے افغانستان کے عوام کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے تعلیم کے شعبے میں تعاون جاری رکھنے کی بھی درخواست کی۔"
طالبان حکومت کے ساتھ بھارت کی بڑھتی قربت
اگست 2021میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پچھلے ڈھائی سالوں کے دوران بھارتی اعلیٰ حکام کے کابل کے کم از کم دو دورے ہوچکے ہیں۔ پہلا دورہ جون 2022 میں اور دوسرا اکتوبر 2022 میں ہوا تھا۔ جون 2022 میں، پہلے سرکاری وفد کے کابل کے دورے کے بعد، بھارت نے ایک ''تکنیکی ٹیم'' کابل بھیجی جو اس وقت سے وہاں سفارت خانے میں تعینات ہے۔ بھارت نے اس کا مقصد افغانستان کے لوگوں کو انسانی امداد اور مدد کی ترسیل کو مربوط کرنا، بتایا ہے۔
بھارت افغان عوام کی مدد کے لیے ادویات، اسکول کے بچوں کے لیے اسٹیشنری کے سامان، گندم سمیت دیگر چیزوں کی شکل میں امداد بھیجتا رہا ہے۔ اس سال جنوری میں، طالبان کے وزیر خارجہ متقی نے بھارت سمیت گیارہ پڑوسی اور علاقائی ممالک کے سفارت کاروں کا ایک اجلاس منعقد کیا تھا اور ایک ''علاقہ پر مبنی بیانیہ'' قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جس کا مقصد افغانستان اور علاقائی ممالک کے درمیان مثبت اور تعمیری مشغولیت کے لیے علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
تاہم بھارت طالبان کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے میں احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ اس نے نئی دہلی میں افغانستان کے سفارت خانے پر طالبان کا پرچم لہرانے کی اجازت نہیں دی ہے اور نہ ہی سفارت خانے کا نام تبدیل کرکے امارت اسلامیہ افغانستان کرنے کی اجازت دی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔