الوداع ٹام آلٹر... چلا گیا اُردو والا انگریز
رہیے اب ایسی جگہ چل کر، جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو، ہم زباں کوئی نہ ہو
یہ مرزا غالب کا شعر ہے جسے گزشتہ دنوں ریختہ سے گفتگو کے آخر میں ٹام آلٹر نے سنایا تھا... اور آج ٹام آلٹر ایسی جگہ چلے گئے جہاں اب اس دنیا کے لوگ نہیں ہوں گے۔
غضب کے اداکار، شاندار تھیٹر آرٹسٹ، اردو زبان کے عاشق اور کرکٹ سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے ٹام آلٹر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہی ٹام آلٹر جنھیں ہم نے اور آپ نے بے شمار ہندی فلموں میں انگریز کا کردار ادا کرتے دیکھا۔ وہی ٹام آلٹر جو اسٹیج پر جس بھی کردار میں آتے تو وہ کردار زندہ ہو اٹھتا۔ اسٹیج پر ان کی آخری موجودگی ایسی تھی جس نے آخری مغل بادشاہ کو رنگون کی قبر سے اٹھا کر دہلی کی سلطنت تک پہنچا دیا تھا۔ اس ڈرامہ میں ٹام نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا کردار نبھایا تھا۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والے اس کردار میں ٹام تو تھے ہی نہیں، اسٹیج پر تو بہادر شاہ ظفر ہی اپنی مفلسی میں مبتلا نظر آ رہے تھے۔ ایسے شاندار اداکار تھے ٹام۔
دراصل ٹام ہند-امریکی تھے۔ ان کی پیدائش مسوری میں ہوئی تھی۔ ان کے گورے رنگ کی وجہ سے انھیں عموماً انگریز افسر یا غنڈہ کا کردار ہی زیادہ ملا۔ ہندی فلموں کے علاوہ بنگلہ، آسامی اور ملیالی فلموں نے بھی ٹام کو انگریز کردار کے لیے ہی کام دیا۔
ٹام نے 1976 میں دھرمیندر اور ہیما مالنی کی مشہور جوڑی والی فلم ’چرس‘ سے ہندی فلموں میں اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس فلم میں ٹام کے کردار کو لوگوں نے خوب پسند کیا۔ انھوں نے بالی ووڈ کی مسالحہ فلمیں کیں تو ستیہ جیت رے کی ’شطرنج کے کھلاڑی‘، رچرڈ اینٹنبرو کی ’گاندھی‘، راج کپور کی ’رام تیری گنگا میلی‘ جیسی فلموں میں بھی غضب کی اداکاری کی۔ 70 کی دہائی کی زبردست کامیاب فلم منوج کمار کی ’کرانتی‘ میں انگریز افسر کے کردار میں انھوں نے لوگوں کا دل جیت لیا۔
ایک مرتبہ انٹرویو میں ٹام نے کہا تھا کہ انھوں نے مولانا آزاد، مرزا غالب، ساحر لدھیانوی کا بھی کردار نبھایا ہے، لیکن کسی کا دھیان ان کے گورے چہرے پر نہیں گیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اگر اداکاری میں دَم ہو توناظرین کسی کے چہرے کا رنگ نہیں دیکھتے۔
ہندی اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں فلموں کے علاوہ ٹام نے کئی غیر ملی فلموں میں بھی کام کیا۔ انھوں نے انگریزی فلم ’وِتھ لَو، دلّی‘، ’سن آف فلاور‘، ’سائیکل کِک‘، ’اَوتار‘، ’اوسیان آف اَن اولڈ مین‘، ’وَن نائٹ وتھ دی کنگ‘، ’سائلنس پلیز‘ جیسی فلموں میں اہم کردار ادا کیے۔ ٹام نے تقریباً 300 فلموں میں کام کیا۔ کہتے ہیں کہ راجیش کھنہ کی فلم ’آرادھنا‘ ٹام کی زندگی میں بڑی تبدیلی لے کر آئی۔ اسی فلم کو دیکھنے کے بعد انھوں نے اداکار بننے کا تہیہ کیا اور ایف ٹی آئی آئی میں داخلہ لیا۔
1977 میں انھوں نے ایف ٹی آئی آئی کے اپنے دوست نصیر الدین شاہ اور بنجامن گیلانی کے ساتھ موٹلی نام کا تھیٹر گروپ شروع کیا۔ انھوں نے 2014 میں راجیہ سبھا ٹی وی کے پروگرام ’سنویدھان‘ میں مولانا ابوالکلام آزاد کا کردار نبھایا جس میں ان کے کردار کی بہت تعریف ہوئی۔ فلموں کے علاوہ انھوں نے اپنے کیریر کا ایک بڑا وقت تھیٹر کو دیا۔ ٹام نے چھوٹے پردے پر بھی کام کیا اور لوگوں کی دل میں ایک خاص مقام بنایا۔ اسی سال ان کی فلم ’سرگوشیاں‘ ریلیز ہوئی ہے جس میں انھوں نے مرزا غالب کا کردار نبھایا۔
ٹام کو فلموں کے علاوہ کھیل میں بھی کافی دلچسپی تھی۔ ٹام سچن تندولکر کا انٹرویو لینے والے پہلے شخص تھے۔ 1988 میں جب ماسٹر بلاسٹر سچن 15 سال کے تھے، تب ٹام نے ان کا پہلا انٹرویو لیا تھا۔
ٹام کو کینسر تھا۔ وہ طویل مدت سے بیمار تھے۔ ان کا ممبئی کے سیف اسپتال میں علاج چل رہا تھا جہاں اکثر وہ تنہا ہی ہوتے تھے۔ اپنی اسی روداد کو ٹام نے ریختہ کو دیے انٹرویو میں غالب کے شعر کے بہانے شاید یوں بیان کیا تھا...
پڑیے اگر بیمار، تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور مر جائیے اگر، تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
الوداع ٹام، بہت سارے نوحہ خواں ہیں تمہارے، تمہاری فصیح زبان ہمیشہ یاد آئے گی۔ بات کرنے کا تمہارا لہجہ یاد آئے گا، اسٹیج پر تمہاری اداکاری کبھی بھلائی نہیں جا سکتی، اور نہ ہی کوئی اس انگریز کو بھول پائے گا جو دل سے ہندوستانی اور زبان سے اردو کا علمبردار تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔